سورة المدثر - آیت 49

فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

پر انہیں کیا ہوا کہ نصیحت سے منہ موڑتے ہیں ؟

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 49 سے 56) ربط کلام : مجرموں کو ان کا اقرار اور انجام بتلانے کے بعد ایک دفعہ پھر نصیحت کی گئی ہے مجرموں کو کیا ہوگیا ہے کہ جب انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو اس پر توجہ کرنے کی بجائے اس سے اس طرح منہ موڑتے ہیں گویا کہ جنگلی گدھے ہیں جو شیر کو دیکھ کر بھاگ کھڑے ہوں۔ ان لوگوں کی حالت یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ اس کے نام کھلے خط بھیجے جائیں جن میں ان سے ایمان لانے کی درخواست کی جائے ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ان کے پاس جب بھی کوئی نشانی آتی ہے تو کہتے ہیں ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ ہمیں وہی کچھ دیا جائے جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ زیادہ جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہاں رکھے عنقریب وہ لوگ جنہوں نے جرم کیے اللہ کے ہاں انہیں ذلت پہنچے گی اور سخت عذاب ہوگا اس وجہ سے کہ وہ مکرو فریب کرتے تھے۔“ (الانعام :124) ﴿اَوْ یَکُوْنَ لَکَ بَیْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰی فِی السَّمَآءِ وَلَنْ نُّوْمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتّٰی تُنَزِّلَ عَلَیْنَا کِتٰبًا نَّقْرَؤُہٗ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ہَلْ کُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا﴾ (بنی اسرائیل :93) ” تیرے لیے سونے کا ایک گھر ہو یا تو آسمان میں چڑھ جائے اور ہم تیرے چڑھنے پر بھی یقین نہیں کریں گے یہاں تک کہ تو ہم پر کتاب لے آئے جسے ہم پڑھیں آپ فرما دیں کہ میرا رب پاک ہے میں تو ایک پیغام پہنچانے والا انسان ہوں۔“ گویا کہ ان میں ہر ایک اپنے نام ہدایت کا پروانہ آنے کی خواہش رکھتا ہے وجہ یہ ہے کہ ان کے دل فکر آخرت سے عاری ہوچکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن تو ایک نصیحت ہے جس کا دل چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے مگر نصیحت اسے نصیب ہوتی ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ ” اللہ“ ہی اس بات کا حق رکھتا ہے کہ اس سے ڈرا جائے کیونکہ وہی لوگوں کے گناہوں کو معاف کرنے والاہے۔ ان آیات میں منکرین حق کی حق سے دوری اور نفرت کا ذکر کرنے کے بعد یہ حقیقت بیان کی ہے کہ جو لوگ آخرت کی جوابدہی کا فکر نہیں رکھتے وہ ہدایت نہیں پا سکتے۔ آخرت کی فکر اور ہدایت اسے نصیب ہوتی ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہدایت پسند کرتا ہے جو اس سے ڈرتا اور ہدایت طلب کرتا ہے۔ کیونکہ اللہ کے ڈر کے بغیر فکر آخرت نصیب نہیں ہوتی اور جسے فکر آخرت نصیب نہیں وہ اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا۔ فہم القرآن: کے کئی مقامات پر اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور گمراہی کو کھول کر بیان کردیا ہے جو شخص ہدایت کی خواہش اور اس کے لیے کوشش کرے گا اسے ہدایت مل جائے گی جو اس سے لاپرواہی کرے گا اسے گمراہی کے لیے کھلا چھوڑ دیا جائے گا اس لیے ارشاد فرمایا ہے کہ جس کے لیے اللہ پسند کرتا ہے ہدایت اسے نصیب ہوتی ہے۔ مسائل: 1۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی نصیحت سے ا عراض کرتے ہیں ان میں کچھ ایسے ہوتے ہیں جو نصیحت سن کر جنگلی گدھوں کی طرح بھاگ جاتے ہیں۔ 2۔ اہل مکہ میں کچھ لوگوں کا مطالبہ تھا کہ ان کے پاس براہ راست قرآن آنا چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کا یہ اصول نہیں کہ وہ ہر شخص کے پاس براہ راست اپنا پیغام بھیجے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن مجید نصیحت ہے۔ جس کا دل چاہے اسے قبول کرے اور جس کا دل چاہے اسے چھوڑ دے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی پر کوئی جبر نہیں۔ 5۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ہدایت کی توفیق دیتا ہے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ وہی ڈرنے کے لائق اور لوگوں کے گناہ بخشنے والاہے۔