سَأُصْلِيهِ سَقَرَ
اب میں اسے ستقر (دوزخ) میں ڈالوں گا
فہم القرآن: (آیت 26 سے 31) ربط کلام : مجرم شخص کو جس کٹھن گھاٹی پر چڑھائے جانے کی دھمکی دی گئی ہے وہ جہنم ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے فرامین کا انکار کرتے ہیں انہیں بہت جلد جہنم میں جھونکا جائے گا۔ اے قرآن پڑھنے والے ! تو نہیں جانتا ہے کہ جہنم کیا ہے ؟ وہ اللہ کا تیار کیا ہوا عقوبت خانہ ہے جس میں مجرم کو موت نہیں آئے گی اور نہ اس کی زندگی ہوگی گویا کہ وہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہے گا۔ وہ چمڑی ادھیڑ دینے والی آگ ہے اس پر انیس فرشتے مقرر کیے گئے ہیں اور یہ تعداد کفار کے لیے آ زمائش بنا دی گئی ہے ہاں یہ ان لوگوں کے لیے آزمائش نہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے کی توفیق بخشی ہے۔ جنت کے فرشتوں کی تعداد اس لیے بتائی گئی ہے تاکہ اہل کتاب کو یقین ہو اور اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ ہو اور انہیں کسی قسم کا شک باقی نہ رہے۔ جن کے دل میں شک کی بیماری ہے اور جنہوں نے کفر اختیار کر رکھا ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس مثال سے کیا سمجھایا ہے ؟ سنو ! اس مثال کا مقصد یہ ہے کہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ لوگوں کی آزمائش کرے کہ کون اس کے فرمان کو مِن و عن مانتا ہے اور کون اس میں باتیں بناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ یقین کرو! کہ ” اللہ“ کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ نبی (ﷺ) نے جب کفار کے سامنے ان آیات کی تلاوت کی تو انہوں نے اپنے انجام پر غور کرنے کی بجائے اس بات کا مذاق اڑایا کہ ایک طرف یہ نبی کہتا ہے کہ جو لوگ مجرم ہوں گے انہیں جہنم میں پھینکا جائے گا ظاہر ہے کہ اس کے بقول لاتعداد لوگ جہنم میں جائیں گے کیا کروڑوں کھربوں انسانوں کو صرف انیس فرشتے قابو کریں گے اور سزا دیں گے یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ اس بات پر مزید ہرزہ سرائی کرتے ہوئے ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ کیا ہم اتنے گئے گزرے ہیں کہ انیس فرشتوں کو قابو نہیں کرسکیں گے مکے کا ایک پہلوان کہنے لگا کہ فکر نہ کرو کہ سترہ ملائکہ کو میں اکیلا ہی سنبھال لوں گا باقی کو سنبھالنے کے لیے تم کافی ہوگے۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کچھ مسائل: مثال کے ذریعے سمجھائے ہیں جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کی کھوٹ ہے وہ اس مثال کو سمجھنے کی بجائے اس کا مذاق اڑاتے ہیں حالانکہ جس بات کو مثال کے ذریعے سمجھایا جائے اس میں کوئی ابہام باقی نہیں رہتا۔ لیکن جن کے دلوں میں کفر و نفاق کا مرض ہوتا ہے وہ حق کو تسلیم کرنے کی بجائے اس سے مزید دور ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے اصول یہ ہے کہ انہیں گمراہی کے لیے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ہدایت اور گمراہی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے جو اللہ تعالیٰ سے ہدایت کا طالب ہوتا ہے وہ اسے ہدایت سے نوازتا ہے اور جو ہدایت سے بے اعتنائی کرتا ہے اسے گمراہی میں کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جہاں تک اہل کتاب کے یقین کرنے کا تعلق ہے ان کی اصل کتابوں میں جہنم کے ملائکہ کی تعداد انیس موجود ہے وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کوئی نبی ” اللہ“ پر جھوٹ نہیں بولتا اس لیے قرآن مجید نے جہنم کے فرشتوں کی جو تعداد بتلائی ہے وہ حق پر مبنی ہے۔ جہنم کی آگ کی کیفیت : ﴿اِنَّہَا عَلَیْہِمْ مُوْصَدَۃٌ فِیْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃٍ﴾ (ہمزہ : 8، 9) ” وہ ان پر ڈھانک دی جائے گی۔ لمبے لمبے ستونوں کی طرح ہوگی۔“ ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْھِمْ نَارًاکُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًاغَیْرَھَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَزِیْزًا حَکِیْمًا﴾ (النساء :56) ” جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا انہیں ہم یقیناً آگ میں ڈال دیں گے جب ان کی کھالیں جل جائیں گی تو ان کی جگہ ہم دوسری کھالیں بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب چکھتے رہیں یقیناً اللہ تعالیٰ غالب، حکمت والا ہے۔“ ﴿وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ اِِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا﴾ (الفرقان :65) ” اللہ کے بندے دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں جہنم کے عذاب سے بچالے جہنم کا عذاب چمٹ جانے والاہے۔“ ﴿ثُمَّ لَا یَمُوتُ فِیْہَا وَلَا یَحْیٰی﴾ (الاعلیٰ:13) ” پھر اس میں موت نہیں آئے گی اور نہ ہی زندگی ہوگی۔“ مسائل: 1۔ جہنم کی سختیوں کا کوئی شخص اندازہ نہیں کرسکتا۔ 2۔ جہنمی جہنم میں ہمیشہ ہمیش موت وحیات کی کشمکش میں رہیں گے۔ 3۔ جہنم کی آگ جہنمیوں کی چمڑیاں ادھیڑ دے گی۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے جہنم پراُنیس ملائکہ مقرر کیے ہیں۔ کفار اس تعداد کا مذاق اڑاتے ہیں مومن اور اہل کتاب اس پر یقین رکھتے ہیں۔ 5۔ ہدایت اور گمراہی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ تفسیر بالقرآن: جہنم کی ہولناکیوں کا ایک منظر : 1۔ جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔ (البقرۃ:24) 2۔ جہنم پر سخت گیر فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ (التحریم :6) 3۔ مجرم جہنم کے گرجنے برسنے کی آوازیں سنیں گے۔ (الفرقان :12) 4۔ جہنم کی آگ بہت زیادہ تیز ہوگی۔ (التوبۃ:81) 5۔ جہنم بھرنے کا نام نہیں لے گی۔ (ق :30) 6۔ جہنم کے شعلے بڑے بڑے مکانوں کی طرح بلند ہوں گے۔ (المرسلٰت :32)