سورة الحاقة - آیت 38

فَلَا أُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

سو جو تم دیکھتے ہو ۔ میں اس کی قسم کھاتا ہوں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 38 سے 48) ربط کلام : قرآن مجید کی تعلیمات میں اس کی سر فہرست تعلیم یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) پر ایمان لایا جائے اور یہ یقین رکھا جائے کہ قیامت ہر صورت آنے والی ہے۔ نافرمان لوگ اللہ اور اس کے رسول اور قیامت پر ایمان لانے کی بجائے قرآن مجید کا ہی انکار کرتے ہیں اور الزام لگاتے ہیں کہ یہ شاعرانہ کلام ہے جس کی تردید کی جا رہی ہے۔ قسم ہے ان چیزوں کی جو تم دیکھتے ہو اور ان کی بھی جنہیں تم نہیں دیکھتے بلاشک یہ قرآن رسول کریم (ﷺ) کی زبان سے پڑھا جاتا ہے یہ کسی شاعر کا کلام نہیں اگرچہ تم بہت کم لوگ ایمان لاتے ہو اور نہ قرآن کسی کاہن کا کلام ہے یہ تو رب العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہے لیکن تم بہت ہی کم اس پر توجہ کرتے ہو۔ اگر رسول کوئی بات اپنی طرف سے ہمارے ذمہ لگا دیتا تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور پھر اس کی شاہ رگ کاٹ ڈالتے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے سب لوگوں کو فرمایا بالخصوص کفار کو مخاطب کیا ہے کہ ان چیزوں کی قسم جو تم کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھتے ہو اور ان کی بھی قسم جو تمہاری آنکھیں نہیں دیکھتیں۔ نظرآنے والی اور نظروں سے اوجھل چیزوں سے مراد مفسرین نے نبی (ﷺ) کے اوصاف حمیدہ، آپ کی جدوجہد کے دور رس اثرات اور مستقبل میں حاصل ہونے والی کامیابیاں لی ہیں۔ اس سورت کی ابتدائی آیات کو سامنے رکھاجائے تو نظر نہ آنے والی چیزوں میں سب سے بڑی بات اور حقیقت قیامت اور اس کی ہولناکیاں ہیں۔ جس کا وہ لوگ انکار کرتے اور مذاق اڑاتے تھے۔ قرآن مجید کے بنیادی مضامین میں تیسرا بڑا مضمون قیامت پر ایمان لانا ہے۔ جس وجہ سے کفار قرآن مجید کے کلام الٰہی ہونے کا انکار کرتے اور یہ الزام دیتے تھے کہ یہ رسول کا اپنا کلام ہے۔ کبھی کہتے کہ یہ شاعر کی شاعری ہے اور کبھی ہرزا سرائی کرتے کہ یہ ایک جوگی اور کاہن کی پیش گوئیاں ہیں۔ اس پر انہیں بار بار سمجھایا گیا کہ یہ نہ رسول کا اپنا کلام ہے نہ شاعر کی شاعری اور نہ کسی کاہن کی کہانت ہے۔ یہ تو جہانوں کے رب کا کلام اور فرمان ہے۔ کفار کے تمام الزامات کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ یہ کلام الٰہی نہیں بلکہ کلام محمد (ﷺ) ہے۔ رب ذوالجلال نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے پُرجلال انداز میں فرمایا کہ یہ قرآن محمد (ﷺ) کا کلام ہونا تو دور کی بات ہے اگر محمد (ﷺ) کوئی بات اپنی طرف سے ہمارے ذمے لگاتے تو ہم اس کی شاہ رگ کاٹ دیتے۔ اگر ہم ایسا کرتے تو کوئی بھی تم میں سے ہمیں ایسا کرنے سے نہ روک سکتا۔ شاہ رگ گردن کی وہ رگ ہے اگر کٹ جائے تو انسان کی موت فوری طور پر واقع ہوجاتی ہے۔ دائیں ہاتھ پکڑنے کا اس لیے ذکر کیا ہے کہ انسان کو اس کے سامنے سے کوئی حادثہ پیش آئے تو اس کا دایاں ہاتھ ہی پہلے حرکت میں آتا ہے اور قوت کے لحاظ سے یہ بائیں ہاتھ سے طاقت والا ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے بارے میں ہر طرح کے الزام کی تردید کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ قرآن رسول کریم (ﷺ) کا قول ہے۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ قرآن مجید نبی (ﷺ) کا کلام ہے۔ اس بات کی تو یہاں تردید کی جا رہی ہے کہ اگر رسول (ﷺ) کوئی بھی بات قرآن میں شامل کرتا تو اس کی شہ رگ کاٹ دی جاتی۔ اس وضاحت کے بعد ”قول رسول کریم“ کا معنٰی صرف یہی کیا جاسکتا ہے اور ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اسے اللہ کے حکم سے جبریل امین (علیہ السلام) لاتے رہے اور نبی (ﷺ) اپنی زبان سے کئی سال تک لوگوں کے سامنے پڑھتے رہے۔ لہٰذا اس لیے قرآن مجید کو ” قول رسول کریم“ کہا گیا ہے۔ یہ پرہیزگاروں کے لیے بہت بڑی راہنمائی اور نصیحت ہے۔ کفار کا یہ بھی الزام تھا کہ اس پر شیطان وحی کرتے ہیں۔ اس کی تردید کے لیے وضاحت کی گئی ہے کہ شیطان نہیں اسے آپ کو جبریل (علیہ السلام) پڑھ کر سناتے ہیں۔ تفسیربالقرآن: آپ (ﷺ) پر لگائے گئے الزامات اور ان کا جواب : (یونس :3) (ص :4) (الطور :29) (یٰس :69) (النحل :101) (الطور :33)