وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا
اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین اور قرابتیوں ‘ اور یتیموں اور محتاجوں سے اور قریبی ہمسایہ ‘ اور اجنبی ہمسایہ اور پاس بیٹھنے والے اور مسافر اور لونڈی غلام سے نیکی کرو ، خدا کسی اترانے والے اور بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا (ف ١)
فہم القرآن : ربط کلام : میاں بیوی کے حقوق کے بعد اللہ تعالیٰ کی عبادت بلا شرکت غیرے کرنے کا حکم نیز والدین‘ قریبی رشتہ داروں اور مستحق لوگوں کے حقوق ادا کرنے کی تلقین۔ گویا کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا بیک مقام تذکرہ کیا گیا ہے۔ انسان اس وقت تک کسی کے حقوق اخلاص کے ساتھ پوری طرح ادا نہیں کرسکتا جب تک صحیح معنوں میں اپنے آپ کو بلا شرکت غیرے اللہ تعالیٰ کی غلامی اور تابعداری میں نہ لے آئے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کبھی احکامات جاری کرنے کے بعد اور کبھی ان کی ابتدا میں اپنی توحید اور تقویٰ یاد دلاتے ہیں تاکہ انسان اپنے آپ کو اس کے حضور مکمل طور پر سر نگوں کر دے۔ ذات کبریا کے بعد والدین ہی انسان کے سب سے زیادہ ہمدرد، محسن، مربیّ اور قریب ہوتے ہیں۔ انسان ماں کی آغوش میں باپ کی کمائی سے نشوونما پاتا ہے۔ اس لیے اللہ اور اس کے رسول کے بعد آدمی کی اطاعت کے سب سے زیادہ حقدار اس کے والدین ہیں۔ والدین‘ یتامیٰ اور مساکین کے تفصیلی مسائل و فضائل کے لیے [ سورۃ البقرۃ آیت 83] کی تفسیر ملاحظہ کیجیے۔ ان کے بعد معاشرے میں ہمسایہ اور بے سہارا ہونے والے طبقات یعنی، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور غلاموں کا ذکر ہوا ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) کا ارشاد ہے کہ جبریل امین (علیہ السلام) اس قدر ہمسایوں کے بارے میں مجھے تلقین کرتے رہے کہ میں نے سمجھا شاید پڑوسی کو وراثت میں شریک بنا دیں گے۔“ [ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ، باب الوصیۃ بالجارو الإحسان إلیہ] حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے استفسار کیا کہ میرے دو پڑوسی ہیں میں پہلے کس کو تحفہ بھیجوں؟ آپ نے فرمایا جس کا دروازہ تیرے زیادہ قریب ہے۔[ رواہ البخاری : کتاب الادب، باب حق الجوار فی قرب الأبواب] رسول اللہ (ﷺ) نے ایک موقع پر تین مرتبہ قسم اٹھاتے ہوئے فرمایا کہ وہ شخص مومن نہیں۔ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کون مومن نہیں ؟ فرمایا جس کی تکلیف سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہ ہو۔ [ رواہ البخاری : کتاب الادب، باب إثم من لایأمن جارہ بوائقہ] مسافر کے حقوق: رسول معظم (ﷺ) کے زمانے میں بالخصوص عرب میں شہر اور بستیاں ایک دوسرے سے بہت ہی دور ہوا کرتی تھیں اور آج کی طرح ہوٹلوں کا انتظام نہیں تھا۔ مسافر لوگ اونٹوں، گھوڑوں اور گدھوں پر سفر کرتے اور اپنا زاد راہ ساتھ رکھا کرتے تھے۔ بسا اوقات راستہ بھول جانے یا مسافت کا اندازہ کرنے میں غلطی ہوجانے کی وجہ سے زاد راہ ختم ہوجاتا۔ بعض اوقات پینے کا پانی بھی میسر نہیں ہوتا تھا۔ ایسے سفر کے بارے میں ہمارے لیے کیا حکم ہے : (عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ (رض) أَنَّہُ قَالَ قُلْنَا یَا رَسُول اللَّہِ إِنَّکَ تَبْعَثُنَا فَنَنْزِلُ بِقَوْمٍ فَلاَ یَقْرُونَنَا فَمَا تَرَی، فَقَالَ لَنَا رَسُول اللَّہِ (ﷺ) إِنْ نَزَلْتُمْ بِقَوْمٍ فَأَمَرُوا لَکُمْ بِمَا یَنْبَغِی للضَّیْفِ فَاقْبَلُوا، فَإِنْ لَمْ یَفْعَلُوا فَخُذُوا مِنْہُمْ حَقَّ الضَّیْفِ الَّذِی یَنْبَغِی لَہُم)ْ[ رواہ البخاری : کتاب الادب، باب إکرام الضیف وخدمتہ إیاہ بنفسہ] ” حضرت عقبہ بن عامر (رض) نے رسول اللہ (ﷺ) سے سوال کیا کہ آپ ہمیں کسی مہم پر روانہ کرتے ہیں اگر ہم ایسے لوگوں کے پاس سے گزریں یا اتریں جو ہماری مہمان نوازی کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ اس صورت حال میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا اگر لوگ تمہارا خیال رکھیں تو اچھی بات ہے بصورت دیگر تمہیں ان سے اپنی مہمانی کا حق وصول کرنا چاہیے۔“ مراد یہ ہے کہ بھوکا مرنے کے بجائے ان سے کھانا پینا مانگا جاسکتا ہے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کی بلا شرکت غیرے عبادت کرنا، والدین اور دیگر رشتہ دار، تعلق داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا لازم ہے۔ 2۔ اللہ متکبر کو پسند نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن : حقوق اللہ اور حقوق العباد : 1۔ ایک اللہ کی ہی عبادت کی جائے۔ ( البقرۃ:21) 2۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ ( لقمان :13) 3۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کیا جائے۔ ( الاحقاف :15) 4۔ ہمسایوں کا خیال رکھا جائے۔ (النساء :36) 5۔ یتامیٰ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم۔ ( البقرۃ:83) 6۔ اقرباء کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم۔ (النحل :90)