بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
(شروع) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم سورت الملک کا تعارف : اس سورت کا نام اس کی پہلی آیت میں موجود ہے یہ سورت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی اس کی تیس آیات ہیں جو دو رکوعات پر مشتمل ہیں۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیّ (ﷺ) قَال إِنَّ سُورَۃً مِنَ القُرْآنِ ثَلاَثُونَ آیَۃً شَفَعَتْ لِرَجُلٍ حَتَّی غُفِرَ لَہُ وَہِیَ سُورَۃُ تَبَارَکَ الَّذِی بِیَدِہِ الْمُلْکُ) (رواہ الترمذی بابُ مَا جَاءَ فِی فَضْلِ سُورَۃِ الْمُلْکِ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : قرآن مجید میں ایک سورت ایسی ہے جس کی تیس آیات ہیں وہ آدمی کی سفارش کرے گی یہاں تک کہ اسے معاف کردیا جائے گا، وہ سورۃ الملک ہے۔“ الملک کی ابتداء میں ارشاد ہوا کہ اللہ کی ذات ہر اعتبار سے بابرکت ہے اور اسی کے ہاتھ میں زمینوں آسمانوں کی بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر ہر اعتبار سے اختیار رکھنے والا ہے۔ اسی نے موت و حیات کا سلسلہ قائم کیا ہے تاکہ لوگوں کو آزمائے کہ کون اس کے حکم کے مطابق فکر و عمل اختیار کرتا ہے۔ اس کی قدرت کا عالم یہ ہے کہ اس نے اوپر نیچے سات آسمان بنائے ہیں اس کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہیں پائی جاتی۔ اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو وہ اپنے اوپر آسمان پر غور کرے اور اس میں کسی قسم کا نقص اور خلل تلاش کرے اس کی نظر تھک کر پلٹ آئے گی لیکن وہ ” اللہ“ کی تخلیق میں کوئی عیب اور خلل نہیں دیکھ پائے گا۔ اس نے نہ صرف پہلے آسمان کو ستاروں سے مزّین کیا ہے بلکہ ان ستاروں میں کچھ ستارے ایسے ہیں جو بھڑکتے ہوئے شعلوں کی صورت میں شیاطین کا تعاقب کرتے ہیں، قیامت کے دن اسی طرح کفار کو جہنم میں جلایا جائے گا جب وہ جہنم میں داخل کیے جائیں گے تو اس کے دھاڑنے کی آوازیں سنیں گے جہنم کی آگ کی شدت اس قدر تیز ہوگی کہ دیکھنے والا یوں محسوس کرے گا جیسے جہنم اپنے جوش میں پھٹ جائیگی۔ جہنم میں جہنمی اپنے آپ پر افسوس کرتے ہوئے کہیں گے کاش ہم دنیا میں اپنی عقل استعمال کرتے اور آج جہنم سے بچ جاتے۔ جب وہ اپنے آپ پر ماتم کر رہے ہوں گے تو جہنم کے فرشتے کہیں گے کیا تمہارے پاس تمہیں سمجھانے اور ڈرانے والا نہیں آیا تھا؟ وہ کہیں گے کیوں نہیں۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے اس کی بات ماننے کی بجائے اس کی تکذیب کی۔ اس تفصیل کے بعد اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو یہ انتباہ کیا ہے کہ اے نافرمان لوگو! کیا تم اس بات سے بے خوف ہوگئے ہو کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تم پر آسمان گرا دے یا تمہیں زمین میں دھنسا دیا جائے یا پھر آسمان سے پتھر برسا کر تمہیں تباہ و برباد کر دے۔ کیا تم اس بات پر غور نہیں کرتے کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے رزق کو روک لے تو پھر تمھیں روزی دینے والا کون ہوگا؟ اگر وہ زمین کے پانی کو بہت نیچے کر دے تو کون تم سے اس پانی کو حاصل کرسکتا ہے؟ اللہ کے فرمان سننے اور اس کی قدر تیں دیکھنے کے باوجود لوگوں کی حالت یہ ہے کہ وہ سیدھے راستے کی بجائے الٹے راستے پر چلتے ہیں۔ ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو اپنے پاؤں پہ چلنے کی بجائے اپنے چہرے کے بل چلتا ہے غور کرو کہ ان میں سے کون شخص ٹھیک اور سیدھے رستے پر چلنے والا ہے۔