ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِّلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ ۖ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَقِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ
اللہ نے کافروں کے لئے ایک مثال بیان کی ہے وہ نوح کی عورت اور لوط کی عورت کی مثال ہے کہ دونوں ہمارے بندوں میں سے دو نیک بندوں کے نکاح میں تھیں ۔ سو ان عورتوں نے ان سے جوی کی پس وہ دونوں بندے ان عورتوں سے خدا کا کچھ عذاب نہ ہٹا سکے ۔ اور کہا گیا کہ اور جانے والوں کے ساتھ آگ میں چلی (ف 1) جاؤ
فہم القرآن: ربط کلام : کفار، مشرکین اور منافقین کو ان کے انجام سے ڈرانے کے لیے دو عظیم انبیاء کی بیویوں کی مثال دی گئی ہے۔ مشرک اپنے شرک، کفار، اپنے کفر اور منافق اپنی منافقت کی بنیاد پر سمجھتے ہیں کہ قیامت کے دن ہمیں کوئی گرفت نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا زعم ختم کرنے کے لیے دوعظیم انبیاء کی بیویوں کی مثال بیان فرمائی ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی نے برادری کو مقدم جانا اور اپنے کفر پر قائم رہی۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی نے رشتہ داری کو عزیز سمجھا اور اپنے خاوند حضرت لوط (علیہ السلام) کے بارے میں منافقت اپنائے رکھی۔ رب ذوالجلال نے نوح اور لوط (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب نازل کیا تو نہ صرف ان عورتوں کو ان کی برادری نہ بچا سکی بلکہ عظیم پیغمبر بھی اپنی بیویوں کو عذاب الٰہی سے نہ بچا سکے۔ اس مثال میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین، کفار اور منافقین پر یہ بات کھول دی ہے کہ قیامت کے دن کوئی اپنے رشتے داروں اور بزرگوں کی وجہ سے جہنم کے عذاب سے نجات نہیں پاسکے گا، اس بات کی مزید وضاحت کے لیے قرآن مجید نے نبی آخرالزمان (ﷺ) کے حقیقی چچا ابولہب کا نام لے کر یہ اصول بیان فرمایا ہے کہ دوسرے انبیائے کرام تو اپنے مقام پر سرور دوعالم (ﷺ) بھی اپنے رشتہ داروں کو جہنم سے نہیں بچاسکیں گے۔ ﴿تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَہَبٍ وَّتَبَّ مَآ اَغْنٰی عَنْہُ مَالُہٗ وَمَا کَسَبَ سَیَصْلٰی نَارًا ذَاتَ لَہَبٍ وَامْرَأَتُہٗ حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ فِیْ جِیْدِہَا حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ﴾ (سورۃ اللہب) ” ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ تباہ ہوگیا۔ جو اس نے مال کمایا وہ اس کے کسی کام نہ آیا۔ ضرور وہ بھٹکنے والی آگ میں ڈالا جائے گا اور اس کی بیوی کو بھی جو لکڑیاں اٹھانے والی ہے۔ اس کی گردن میں مونجھ کی رسی ہوگی۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہ (ﷺ) حِیْنَ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ ﴿وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ﴾ قَالَ یَامَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَھَا اشْتَرُوْٓا أَنْفُسَکُمْ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا یَابَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا یَاعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَآأُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَیَاصَفِیَّۃُ عَمَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَیَافَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ سَلِیْنِیْ مَاشِئْتِ مِنْ مَالِیْ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا) (رواہ البخاری : کتاب الوصایا، باب ھل یدخل النساء والولد فی الأقارب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں جب یہ آیت (اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے) نازل ہوئی تو رسول اللہ (ﷺ) کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے قریش کے لوگو! اپنے لیے کچھ کر لومیں تمہیں اللہ کے عذاب سے کوئی فائدہ نہیں دے سکوں گا۔ اے بنی عبد منا ف میں تمہیں اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکوں گا۔ اے عباس بن عبدالمطلب ! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا۔ اے صفیہ! رسول کی پھوپھی! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا۔ اے فاطمہ بنت محمد! میرے مال سے جو چاہتی ہے مانگ لے میں مگر تجھے اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان اور ایثار کی خاطر فرعون جیسے ظالم اور نافرمان کی بیوی کو جنت میں داخل فرمایا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ مظلوم کی دعا قبول کرتا ہے اس لیے اس نے فرعون کے مظالم سے اس کی بیوی کو نجات عطا فرمائی۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ ہی ظالموں سے نجات دینے والا ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں کو ظالموں سے نجات دی۔ ( الشعراء :119) 2۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں کو فرعون کے مظالم سے نجات عطا فرمائی۔ (الشعراء :65) 3۔ اللہ تعالیٰ نے لوط (علیہ السلام) کو بے حیا قوم سے نجات عطا فرمائی۔ (الشعراء :170) 4۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو اللہ تعالیٰ نے ظالموں سے نجات عطا فرمائی۔ (ہود :97) 5۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود اور ان کے ساتھیوں کو ظالموں سے نجات دی۔ (ہود :58) 6۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو ظالموں سے نجات دی۔ (ہود :66)