وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ ۚ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا
جو کچھ والدین اور قرابتی چھوڑیں ‘ اس میں ہر کسی کے وارث ہم نے مقرر کردیئے ہیں اور جن سے تم نے اقرار باندھا ہے ان کا حصہ انہیں دو ۔ بےشک ہر شے خدا کے روبرو ہے (ف ١)
فہم القرآن : ربط کلام : مردوں اور عورتوں کے معاشرتی اور اخلاقی حقوق بیان کرنے کے بعد مالیاتی حقوق کا تحفظ فرمایا گیا ہے۔ اوپر کی آیت میں مرد اور عورت کی کمائی کو الگ الگ تسلیم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہاں عربوں کے اس رواج کی اصلاح کی گئی ہے جس میں مرنے والا اپنے حقیقی وارثوں کو محروم کرکے کسی دوست یا رشتہ دارکے نام اپنی جائیداد وقف کردیتا تھا۔ فرمایا کہ مرد ہو یا عورت ہر ایک کا حصّہ اور اس کے وارثوں کا تعیّن کردیا گیا ہے۔ اب ان کے حصہ میں کمی وبیشی کرنا کسی طرح جائز نہیں۔ سوائے اس کے جو اس فرمان کے نازل ہونے سے پہلے تم نے کسی کے ساتھ عہد کیا ہو۔ اسے عہد کے مطابق اتنا حصہ دے سکتے ہو۔ لیکن اس کے بعد ایسا کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔ اس فرمان کے نازل ہونے سے پہلے انصار اپنے مہاجر بھائیوں کو وراثت میں حصہ دار ٹھہرایا کرتے تھے۔ اس حکم کے نازل ہونے کے بعد یہ سلسلہ ختم کردیا گیا اور فرمایا کہ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کو اچھی طرح جانتا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) فتح مکہ کے موقع پر سخت بیمار ہوئے۔ انہوں نے رسول محترم (ﷺ) سے عرض کیا کہ میرے پاس بہت سا مال ہے ایک بیٹی کے علاوہ کوئی وارث نہیں۔ میں اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں صدقہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے انہیں اجازت عنایت نہیں فرمائی۔ پھر انہوں نے نصف کی اجازت طلب کی۔ آپ نے اس کی بھی اجازت نہیں دی اس کے بعد انہوں نے ایک تہائی کی اجازت مانگی تو آپ نے یہ فرما کر اجازت دی کہ یہ بھی زیادہ ہے۔ اپنی اولاد کو مال دار چھوڑناان کو محتاج چھوڑنے سے زیادہ بہتر ہے۔ [ رواہ البخاری : کتاب الفرائض، باب میراث البنات] مسائل : 1۔ وراثت کی تقسیم شریعت کے مطابق ہونی چاہیے۔ نوٹ : وراثت کا بیان سورۃ النساء 11: کے تحت دیکھئے۔