وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوا ۖ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ ۚ وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِن فَضْلِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
اور خدا نے تم میں سے بعض کو بعض پر جو فضیلت بخشی ہے تم اس کی تمنا نہ کرو مردوں کے لئے ان کی کمائی سے حصہ ہے اور عورتوں کے لئے انکی کمائی کا حصہ ہے اور اللہ سے اس کا فضل مانگو ۔ بےشک اللہ کو سب کچھ معلوم ہے (ف ٢)
فہم القران : ربط کلام : جس طرح بڑے گناہ آدمی کو ہلاک کردیتے ہیں اسی طرح حسد بھی آدمی کے اعمال کو ضائع کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے اظہار اور دنیا کے نظام کو چلانے کے لیے لوگوں کے درمیان تفاوت اور اونچ نیچ رکھی ہے تاکہ انسان ایک دوسرے کی ضرورت محسوس کرکے باہمی تعاون اور احترام کریں۔ جس کو نعمت میسر آئی ہے وہ شکر ادا کرے اور جسے محروم رکھا گیا ہے وہ صبر کرے۔ چھوٹے بڑے کا فرق عام انسانوں کے علاوہ بسا اوقات ایک باپ کی اولاد میں بھی پایا جاتا ہے۔ ایک خوبصورت دوسرا عام صورت ہے‘ ایک تنو مند اور طویل قدوقامت لیے ہوئے، جبکہ دوسرا پست قد اور ناتواں جسم کا مالک ہے‘ ایک معمولی محنت کے بعد دولت میں کھیل رہا ہے دوسرا سخت مشقت اٹھانے کے باوجود غربت کے تھپیڑے کھا رہا ہے‘ ایک دانا دوسرا نادان ہے۔ اس فطری تفاوت کے بارے میں حکم دیا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ جلنے اور حسد کرنے کے بجائے اسے اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت سمجھ کر قبول کرو۔ یاد رکھو کہ تمہارے رب کے نزدیک طاقت ور اور کمزور، گورے اور کالے، غریب اور امیر، شاہ اور گدا، عربی اور عجمی میں کوئی فرق نہیں۔ اس کی بارگاہ میں چہرے نہیں دل دیکھے جاتے ہیں۔ نعرے نہیں آدمی کا کردار دیکھا جاتا ہے۔ اسی کو رسول اللہ (ﷺ) نے حجۃ الوداع کے موقع پر یوں بیان فرمایا : (یَآ أَیُّھَا النَّاسُ !أَلَآ إِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وَإِنَّ أَبَاکُمْ وَاحِدٌ أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی أَعْجَمِیٍّ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَلَا لِأَحْمَرَ عَلی أَسْوَدَ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی أَحْمَرَ إِلَّا بالتَّقْوٰی) [ مسند أحمد : کتاب مسند الأنصار، باب حدیث رجل من أصحاب النبی (ﷺ) ] ” اے لوگو! خبردار یقینًا تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے خبردار! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ کو کالے پر اور کسی کالے کو سرخ پر سوائے تقویٰ کے کوئی فضیلت حاصل نہیں۔“ رسول اللہ (ﷺ) نے غریبوں کو خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا : (یَدْخُلُ فُقَرَاءُ الْمُسْلِمِیْنَ الْجَنَّۃَ قَبْلَ أَغْنِیَائِھِمْ بِنِصْفِ یَوْمٍ وَّھُوَ خَمْسُ مائَۃِ عَامٍ) [ رواہ الترمذی : کتاب الزھد، باب ماجاء أن فقراء المھاجرین یدخلون الجنۃ قبل أغنیائھم] ” غریب مسلمان امیر لوگوں سے پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔“ لہٰذا قدرت کے فرق کو مٹانے یا حسد کے ساتھ آگے بڑھنے میں اپنی صلاحیتیں ضائع نہ کرو۔ بلکہ اپنے آپ کو سنوارنے اور آخرت بنانے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل کے طلب گار اور اس کا قرب تلاش کرنے والے ہوجاؤ۔ اس کے خزانے لامحدود، اس کی رحمت بے کراں اور اس کا فضل بے حد و حساب ہے۔ وہاں مرد وزن میں فرق کیے بغیر ہر کسی کے اعمال اور اس کی نیت و کردار کے مطابق اجر دیا جائے گا۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قالَ إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیْثِ وَلَاتَحَسَّسُوْا وَلَاتَجَسَّسُوْا وَلَاتَدَابَرُوْا وَلَاتَبَاغَضُوْا وَکُوْنُوْا عِبَاد اللّٰہِ إِخْوَانًا) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ بدگمانیوں سے بچو کیونکہ گمان سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے اور نہ ٹوہ لگاؤ، نہ جاسوسی کرو، نہ پیٹھ پیچھے باتیں کرو اور نہ ہی آپس میں بغض رکھو اور اللہ کے بندو ! بھائی بھائی بن جاؤ۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے مرد و زن کے حصّے مقرر فرما دیے ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کا فضل مانگنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: فضل کا معنٰی و مفہوم : 1۔ فضل سے مراد مال۔ (البقرۃ:198) 2۔ فضل سے مراد احسان کرنا۔ (البقرۃ:64) 3۔ فضل سے مراد فضیلت۔ (النساء :70) 4۔ فضل سے مراد مال غنیمت۔ (النساء :73)