يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ تِجَارَةٍ تُنجِيكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ
مومنو ! میں تمہیں ایک سوداگری (ف 1) بتاؤں ؟ کہ تمہیں دکھ کی مار سے بچائے
فہم القرآن: (آیت 10 سے 13) ربط کلام : مشرکین کی مخالفت کی پرواہ کیے بغیر دین حق کو قبول اور اس کی اشاعت کرنا یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تجارت کرنے کے مترادف ہے۔ جس کے نتیجہ میں دنیا کی کامیابی حاصل ہوگی اور آخرت میں عذاب سے نجات پانے کے ساتھ جنت میں داخل ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو نفع اور نقصان کا شعور بخشا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ریڑھی بان کو معلوم ہوجائے کہ میرا سودا فلاں چوک اور بازار میں زیادہ بک سکتا ہے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ میں اس چوک اور بازار میں ریڑھی لگاؤں۔ مزدور کو معلوم ہو کہ مجھے فلاں شہر میں زیادہ مزدوری ملے گی، تو وہ زیادہ مزدوری پانے کے لیے اپنے بال بچے چھوڑ کر اس شہر کارخ کرتا ہے۔ منافع اور فائدے کے لالچ میں ہی لوگ اپنا وطن چھوڑ کر دوردراز کے ملکوں میں جاکر نوکری اور تجارت کرتے ہیں۔ گویا کہ بنیادی طور پر ہر انسان کو اپنے نفع اور نقصان کا شعور دیا گیا ہے اس شعور کو دین اور آخرت کی خاطر استعمال کرنے کا حکم ہے۔ اے ایمان والو! میں تمہیں ایسی تجارت بتاتا ہوں کہ جس میں کبھی نقصان نہیں ہوگا۔ اس کا بنیادی اور دائمی فائدہ یہ ہے کہ تمہارے گناہ معاف ہوں گے اور تمہیں عذاب الیم سے نجات حاصل ہوگی اور تمہیں اس جنت میں داخل کیا جائے گا جس کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہاں صاف ستھرے، اعلیٰ اور پاکیزہ مکانات ہیں، اس کی نعمتیں ہمیشہ رہنے والی ہیں، جسے اس میں داخلہ نصیب ہوا اس کے لیے یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ ہاں تم پسند کرتے ہو کہ تمہیں دشمن پر فتح حاصل ہو وہ بھی تمہیں حاصل ہوگی۔ جس تجارت کے بدلے تمہیں ہمیشہ کی جنت اور دشمن پرکامیابی حاصل ہوگی وہ تجارت یہ ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر سچا ایمان لاؤ اور اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرو یہ تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے بشرطیکہ تم اس کی حقیقت سمجھ جاؤ۔ اس سورت کی ابتدا میں ارشاد فرمایا کہ یقیناً اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی راہ میں کفار اور مشرکین کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار بن کر قتال کرتے ہیں۔ یہاں قتال کی بجائے جہاد کا لفظ استعمال فرمایا ہے کیونکہ میدان کارزار میں اترنے سے پہلے مال و جان کے ساتھ کوشش کرنا پڑتی ہے، جہاد کا معنٰی اللہ کے راستے میں کوشش کرنا اور قتال فی سبیل اللہ اس مقصد کے لیے انتہائی اقدام ہے۔ اس لیے یہاں قتال کی بجائے جہاد کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس میں ہر وہ کوشش شامل ہوگی جودین کے بتلائے ہوئے طریقہ کے مطابق اس کی سربلندی کے لیے کی جائے گی۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر لفظ قتال جہاد کے معنٰی میں استعمال کیا ہے یہ ایسی تجارت اور سودا ہے جس کا خریدار اللہ تعالیٰ خود ہے جس کے بارے میں اس کا ارشاد ہے۔ ” یقیناً اللہ نے ایمان والوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لیے ہیں۔ اس کے بدلے کہ یقیناً ان کے لیے جنت ہے، وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں، قتل کرتے ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں، تورات اور انجیل اور قرآن میں اللہ کے ذمے یہ پکا وعدہ ہے اور اللہ سے زیادہ اپنا وعدہ پورا کرنے والا کون ہوسکتا ہے ؟ اس سودے پر خوب خوش ہوجاؤ جو تم نے اللہ سے کیا ہے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔“ (التوبہ :111) (عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِیّ (ﷺ) قَالَ جَاہِدُوا الْمُشْرِکِینَ بِأَمْوَالِکُمْ وَأَنْفُسِکُمْ وَأَلْسِنَتِکُمْ) (رواہ ابوداؤد : باب کَرَاہِیَۃِ تَرْکِ الْغَزْوِ، حکمہ صحیح) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا اپنے مالوں، جانوں اور زبانوں کے ساتھ مشرکین سے جہاد کرو۔“ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قالَ قَالَ رَجُلٌ للنَّبِیِّ (ﷺ) یَوْمَ أُحُدٍ أَرَأَیْتَ إِنْ قُتِلْتُ فَأَیْنَ أَنَا قَالَ فِی الْجَنَّۃِ فَأَلقٰی تَمَرَاتٍ فِیْ یَدِہٖ ثُمَّ قَاتَلَ حَتّٰی قُتِلَ) (رواہ البخاری : باب غزوۃ أحد) ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے غزوۂ احد کے دن نبی کریم (ﷺ) سے پوچھا اگر میں شہید ہوجاؤں تو میں کہاں ہوں گا؟ آپ نے فرمایا : جنت میں۔ اس کے ہاتھ میں کھجوریں تھیں اس نے پھینک دیں پھر لڑا یہاں تک کہ شہید ہوگیا۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : جنت اس طرح بنائی گئی ہے کہ اس کی ایک اینٹ چاندی کی اور دوسری سونے کی ہے اور اس کا گارا خوشبودار کستوری کا ہے۔ اس کے کنکر لؤلؤ اور یاقوت کے ہیں اور اس کی مٹی زعفران کی ہے جو اس میں داخل ہوگا وہ خوش و خرم رہے گا۔ اسے کوئی تکلیف نہیں ہوگی وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اسے موت نہیں آئے گی نہ اس کے کپڑے بوسیدہ ہوں گے اور نہ ہی وہ بوڑھا ہوگا۔“ (رواہ الترمذی : کتاب صفۃ الجنۃ) مسائل: 1۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، کفار اور مشرکین کے ساتھ مال وجان کے ساتھ جہاد کرنا نہایت ہی فائدہ مند تجارت ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ایمان اور جہاد کے بدلے مسلمانوں کے گناہ معاف کرتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ایمان اور جہاد کے بدلے مومنوں کو ہمیشہ کی جنت میں داخل فرمائے گا جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور اس کے محلات بڑے اعلیٰ اور پاکیزہ ہوں گے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ایمان اور جہاد کے بدلے مسلمانوں کو بہت جلد فتح عطا فرمائے گا۔ 5۔ کفار اور مشرکین کے مقابلے میں دنیا کی کامیابی اور آخرت میں جنت ملنا بہت بڑی خوشخبری اور کامیابی ہے۔ تفسیر بالقرآن: جہاد فی سبیل اللہ کی فرضیت اور فضیلت کے چند دلائل : 1۔ اے نبی (ﷺ) ! مومنوں کو جہاد کی ترغیب دیں۔ (الانفال :65) 2۔ مظلوم مسلمانوں کے لیے جہاد کریں۔ (النساء :75) 3۔ کفارکو ایسی مار مارو کہ ان کے پچھلے بھی بھاگ کھڑے ہوں۔ (الانفال :57) (النساء :95) (التوبہ :88) 4۔ ان سے لڑائی کرو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور خالصتادین اللہ کے لیے ہوجائے۔ (البقرۃ:193) 5۔ تم شیطان کے دوستوں سے لڑائی کرو یقیناً شیطان کی تدبیر کمزور ہے۔ (النساء :76) (البقرۃ:218) 6۔ مجاہدین کے ساتھ اللہ نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ (التوبۃ:111) 7۔ مجاہد اور غیر مجاہد برابر نہیں ہوسکتے۔ (النساء :95)