سورة الطور - آیت 25

وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور بعض بعض کی طرف متوجہ ہوکر پوچھیں گے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت25سے28) ربط کلام : جنتی کی آپس میں گفتگو اور اظہار تشکر۔ جنتی جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے اور آپس میں خوش گپیاں کرنے کے باوجود ہر دم اس بات کا خیال رکھیں گے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں جنت میں داخل نہ کرتا تو ہم بھی دوسرے لوگوں کی طرح جہنم کے عذاب میں جل رہے ہوتے۔ رب کریم کا ہم پر احسان عظیم ہے کہ اس نے ہمیں جہنم کے جلادینے والے عذاب سے بچا کر جنت میں داخل فرمایا۔ ہم دنیا میں اپنے اہل خانہ میں بیٹھے ہوئے بھی اپنے رب سے ڈرا کرتے اور اس سے اس کی رحمت مانگا کرتے تھے۔ اس نے ہماری دعاؤں کو قبول کیا، ہم پر مہربانی فرمائی اور ہمیں جہنم سے بچا کر جنت میں داخل فرمایا کیونکہ وہ بہت ہی احسان فرمانے اور مہربانی کرنے والا ہے۔ جنتی دل کی گہرائی اور زبان کی سچائی سے اس حقیقت کا اعتراف کریں گے کہ جنت کا داخلہ ہماری نیکیوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے احسان کا نتیجہ ہے۔ جنتی کی گفتگو کا حوالہ دے کریہ بتلایا گیا ہے کہ جنت میں جانے والے لوگ لوگوں کے سامنے صرف ظاہری طور پر نہیں بلکہ حقیقتاً نیک ہوتے ہیں۔ جس وجہ سے ان کے گھروں کا ماحول دینی اور پاکیزہ ہوتا ہے۔ وہ خود بھی اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اپنی اولاد کو بھی خدا خوفی کا سبق دیتے ہیں۔ جنت میں جانے کے لیے ضروری ہے کہ والدین اپنی اولاد کو خدا خوفی کا درس دیتے رہیں۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () حِیْنَ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ İوَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَĬ قَالَ یَامَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَھَا اشْتَرُوْٓا أَنْفُسَکُمْ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا یَابَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا یَاعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَآأُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَیَاصَفِیَّۃُ عَمَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیئًا وَیَافَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ سَلِیْنِیْ مَاشِئْتِ مِنْ مَالِیْ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا) (رواہ البخاری : کتاب الوصایا، باب ھل یدخل النساء والولد فی الأقارب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں جب یہ آیت (اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے) نازل ہوئی تو رسول اللہ (ﷺ) کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے قریش کے لوگو! اپنے لیے کچھ کر لومیں تمہیں اللہ کے عذاب سے کوئی فائدہ نہیں دے سکوں گا، اے بنی عبد منا ف میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ اے عباس بن عبدالمطلب ! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا، اے صفیہ ! رسول کی پھوپھی! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔ اے فاطمہ بنت محمد! میرے مال سے جو چاہتی ہے مانگ لے لیکن میں تجھے اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔“ (التحریم :6) ” اے ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، جس پر نہایت تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہیں جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے۔ انہیں جو حکم دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں۔“ مسائل: 1۔ نیک لوگ جلوت اور خلوت میں اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔ 2۔ نیک لوگوں کے گھر کا ماحول بھی دینی اور پاکیزہ ہوتا ہے۔ 3۔ نیک لوگ اپنے رب سے جنت مانگنے کے ساتھ جہنم کے عذاب سے بھی پناہ مانگتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم فرمانے والا ہے : 1۔ اللہ ہی رحم کرنے والا ہے۔ (الانعام :133) 2۔ مہربانی کرنا اللہ نے اپنے آپ پر لازم کرلیا ہے۔ (الانعام :54) 3۔ میرے بندوں کو میری طرف سے خبر کردیں کہ میں بخشنے والا، رحم کرنے والا ہوں۔ (الحجر :49) 4۔ اللہ مومنوں کو اندھیروں سے نکالتا ہے کیونکہ وہ رحم فرما نے والا ہے۔ (الاحزاب :43)