سورة الذاريات - آیت 50

فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ ۖ إِنِّي لَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌ مُّبِينٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

پس تم اللہ کی طرف بھاگو میں تمہیں اس کی طرف سے صریح ڈرانے والا ہوں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت50سے53) ربط کلام : جس رب نے زمین و آسمان بنائے اور ہر چیز کو جوڑا، جوڑا پیدا کیا ہے اس کا کوئی جوڑا نہیں یعنی اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس لیے انسان کا فرض ہے کہ وہ ادھر ادھر ٹکریں مارنے کی بجائے ہر حال میں اس کی طرف رجوع کرے۔ اللہ تعالیٰ نے جبر کی بجائے دلائل کے ذریعے واضح فرمایا ہے کہ اے انسان ! تجھے اور ہر چیز کو صرف میں نے پیدا کیا ہے۔ تیری تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ تو اس کی بندگی اختیار کرے۔ اس نے اس سبق کی یاددہانی کے لیے انبیائے کرام (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا۔ جن میں آخری پیغمبر حضرت محمد (ﷺ) ہیں۔ آپ کی دعوت تھی اور ہے کہ لوگو! معبودان باطل کو چھوڑ کر صرف ایک ” اللہ“ کی طرف آجاؤ اور اس کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بناؤ۔ بے شک میں تمہارے لیے کھلے الفاظ میں انتباہ کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ لیکن اہل مکہ نے آپ کی دعوت قبول کرنے کی بجائے آپ کو ساحر اور مجنون کہا۔ اس پر آپ کو تسلّی دی جارہی ہے کہ اے نبی (ﷺ) ! آپ کو حد سے زیادہ غم زدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ آپ سے پہلے بھی انبیائے کرام (علیہ السلام) کو ساحر اور مجنون کہا گیا ہے۔ یہ لوگ اس طرح ہی الزام لگائے جارہے ہیں جیسے انہیں ان کے پہلوں نے وصیّت کی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ باغی ہیں۔ نبی آخرالزماں (ﷺ) بھی ” اللہ“ کی طرف سے ہی مبعوث کیے گئے تھے۔ اس لیے آپ نے لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں جس اللہ کی طرف تمہیں بلارہا ہوں اسی کی طرف سے مبعوث کیا گیا ہوں۔ اس کا فرمان ہے کہ لوگو! ایرے غیرے کو چھوڑ کر صرف اور صرف اپنے اللہ کی طرف رجوع کرو۔ اس کی طرف رجوع کرنے کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ اس کی ذات اور صفات میں کسی اور کو شریک نہ بناؤ۔ میں اسی کی طرف سے تمہیں یہ دعوت دیتا ہوں۔ جو لوگ اس دعوت کو قبول نہیں کریں گے انہیں کھلے الفاظ میں ڈرانے والا ہوں۔ آپ (ﷺ) کے مخاطبین نے آپ کی دعوت قبول کرنے کی بجائے آپ کو جادوگر اور مجنون قرار دیا۔ یہ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے کہ وہ آپ کو جادوگر اس لیے کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی زبان اور دعوت میں غضب کی تاثیر رکھی تھی۔ جو شخص آپ سے ہم کلام ہوتا اور آپ کی دعوت کو توجہ سے سنتا وہ متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اہل مکہ کو یہ بات کسی صورت گورانہ نہ تھی جس وجہ سے وہ آپ کے بارے میں منفی پروپیگنڈا کرتے اور آپ کو جادوگر کہتے تھے۔ آپ (ﷺ) کو مجنون کہنے کی چند وجوہات۔ 1۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ (ﷺ) کی معاشرے میں بڑی عزت کی جاتی تھی۔ لیکن اس نے اپنی دعوت کی خاطر اپنی عزت کو پامال کرلیا ہے۔ 2۔ انہوں نے آپ (ﷺ) کو ہر قسم کی پیشکش کی لیکن آپ نے انہیں ٹھکرادیا۔ اس بنا پر وہ آپ کو مجنون کہتے تھے۔ 3۔ آپ (ﷺ) باربار توحید کی دعوت دیتے تھے اس بنا پر کفار سمجھتے تھے کہ یہ مجنون آدمی کی طرح ایک ہی بات باربار دوہرائے جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کے ردِعمل میں پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) کی طرف اشارہ فرما کر آپ (ﷺ) کو تسلی دی ہے کہ یہ لوگ اپنے سے پہلے لوگوں کی باتوں کو اس طرح دوہرائے جا رہے ہیں۔ جیسے یہ ایک دوسرے کو اس کی وصیت کرتے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے رب کے باغی اور نافرمان ہیں۔ بے شک پہلوں اور ان کے درمیان صدیوں کا فاصلہ ہے لیکن افکار اور کردار کے لحا ظ سے ایک ہیں۔ جس طرح ان سے پہلے مجرموں کا انجام ہوا اسی طرح ان کا انجام ہوگا۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ یَقُوْلُ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی لأَہْوَنِ أَہْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ کَانَتْ لَکَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا أَکُنْتَ مُفْتَدِیًا بِہَا فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیَقُوْلُ قَدْ أَرَدْتُ مِنْکَ أَہْوَنَ مِنْ ہَذَا وَأَنْتَ فِیْ صُلْبِ اٰدَمَ أَنْ لاَ تُشْرِکَ أَحْسَبُہُ قَالَ وَلاَ أُدْخِلَکَ النَّارَ فَأَبَیْتَ إِلاَّ الشِّرْکَ) (رواہ مسلم : باب طَلَبِ الْکَافِرِ الْفِدَاءَ بِمِلْءِ الأَرْضِ ذَہَبًا) ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں، آپ (ﷺ) فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ جہنمیوں میں سے کم ترین عذاب پانے والے سے فرمائے گا کہ اگر دنیا اور جو کچھ اس میں ہے تیرے پاس ہو۔ کیا تو اسے فدیہ کے طور پردینے کے لیے تیار ہے؟ وہ کہے گا جی ہاں ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تجھ سے اس سے بہت چھوٹی بات کا مطالبہ کیا تھا جب تو آدم کی پشت میں تھا وہ یہ کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا۔ راوی بیان کرتا ہے کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا میں تجھے جہنم میں داخل نہ کرتا مگر تو شرک سے باز نہ آیا۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور الٰہ نہیں اس لیے ہر حال میں اسی کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے برے لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرانے کے لیے نبی آخرالزماں (ﷺ) کو مبعوث فرمایا۔ 3۔ آپ (ﷺ) کے مخالفین نے آپ پر وہی الزام لگائے جو پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) پر لگائے گئے تھے۔ 4۔ ہر دور کے مشرک کا ایک ہی عقیدہ اور کردار رہا ہے۔ 5۔ مشرک اور کافر حقیقت میں اپنے رب کے باغی اور نافرمان ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) پر لگائے گئے الزامات کا خلاصہ : 1۔ حضرت نوح کو ان کی قوم نے کہا کہ ہم تمہیں جھوٹا تصور کرتے ہیں۔ (ہود :27) 2۔ کفار نے تمام انبیاء کو جادوگر اور دیوانہ قرار دیا۔ (الذاریات :52) 3۔ قوم فرعون نے موسیٰ کو جادوگر ہونے کا الزام لگایا۔ (القصص :36) 4۔ یہودیوں کا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ پر الزام۔ (النساء :156) 5۔ فرعون کے سرداروں نے کہا یہ تو جادو ہے۔ (الاعراف :109) 6۔ نبی (ﷺ) کو اہل مکہ نے جادوگر کہا۔ (الصف :6) 7۔ کفار نبی (ﷺ) کو شاعر قرار دیتے تھے۔ (الطور :30) 8۔ اگر ہم ان کے لیے آسمان سے کوئی دروازہ کھول دیں اور یہ اس میں سے چڑھ جائیں تو کہیں گے ہماری آنکھیں بند کردی گئی ہیں۔ بلکہ ہم پر جادو کردیا گیا ہے۔ (الحجر : 14۔15) 9۔ کفار کے سامنے جب حق آیا تو انھوں نے کہا یہ تو جادو ہے۔ (سباء :43) 10۔ کفار نے نبی اکرم (ﷺ) کو سحر زدہ قرار دیا۔ (الفرقان :8) 11۔ جب کفار کے پاس حق بات آئی تو انھوں نے رسول اکرم (ﷺ) پر جادو گر ہونے کا الزام لگایا۔ (یونس :76) 12۔ کفار نے کہا یہ نبی تو جادوگر ہے۔ (یونس :2) 13۔ کفار نے کہا یہ نبی جھوٹا اور جادوگر ہے۔ (ص :4) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنانا چاہیے : 1۔ ” اللہ“ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ (الرعد :36) ۔ ” اللہ“ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ (النساء :36)