سورة ق - آیت 36

وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّن قَرْنٍ هُمْ أَشَدُّ مِنْهُم بَطْشًا فَنَقَّبُوا فِي الْبِلَادِ هَلْ مِن مَّحِيصٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور ان سے پہلے ہم نے کتنی ہی امتیں ہلاک کر ماریں جو قوت میں ان سے سخت تھے ۔ پھر انہوں نے شہروں میں تفتیش کی کہ کہیں بھاگنے کا ٹھکانا بھی ہے ؟

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت36سے37) ربط کلام : جو لوگ جہنم کی وعید اور جنت کی نوید سننے کے باوجود اپنے رب کی طرف قلباً اور عملاً رجوع نہیں کرتے ان کا دنیا میں انجام۔ قرآن مجید کے پہلے مخاطب اہل مکہ تھے اس لیے انہیں بتلایا کہ تم سے پہلے کتنی جماعتیں گزچکی ہیں جو جسمانی قوت اور وسائل: کے لحاظ سے تم سے زیادہ طاقت ور تھیں اور وہ بہت سے شہروں اور علاقوں میں پھرنے والے تھے۔ لیکن ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا تو انہیں پناہ لینے کے لیے کوئی جگہ میسر نہ آئی۔ ” فَنَقَّبُوْا فِی الْبِلَادِ“ کے اہل تفسیرنے دو معانی کیے ہیں۔ 1۔ وہ اس قدر طاقت ور تھے کہ انہوں نے کئی شہر اور علاقے فتح کیے اور ان میں پوری عیش وعشرت کے ساتھ رہتے اور گھوما کرتے تھے لیکن جب ان کی گرفت ہوئی تو وہ کہیں بھی پناہ حاصل نہ کرسکے۔ پناہ کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں تہس نہس کردیا۔ 2۔” فَنَقَّبُوْا“ کادوسرا معنٰی یہ ہے کہ وہ بہت سے شہروں کو فتح کرنے والے اور ان میں فاتح انداز میں داخل ہونے والے تھے۔ پہلی اقوام کی تباہی اس شخص کے لیے عبرت کا باعث ہے جو اپنے سینے میں دل رکھتا ہے۔ سینے میں دل رکھنے سے مراد وہ دل ہے جس میں سچ بات سننے اور اسے قبول کرنے کا جذبہ ہو۔ جب دل سچے جذبے کے ساتھ کسی طرف متوجہ ہوتا ہے تو کان بھی سننے کے لیے طرح تیار ہوجاتے ہیں۔ دل اور کان کسی بات کی طرف متوجہ ہوں تو سننے والا اس بات کو جلد قبول کرلیتا ہے۔ یہی شخص ہی نصیحت سے مستفید ہوتا ہے۔ گویا کہ نصیحت حاصل کرنے کے لیے بیک وقت تین کام ضروری ہیں۔ 1۔ دل کی توجہ۔ 2۔ ہمہ تن گوش ہونا۔ 3۔ اور حق کی طرف پوری طرح متوجہ ہونا۔ ان میں سے کوئی ایک بات منقود ہو تو انسان بڑے سے بڑے واقعہ اور سانحہ سے عبرت حاصل نہیں کرتا۔ جن قوموں کو نیست و نابود کیا گیا ان میں یہی نقص پایا جاتا تھا کہ وہ حق بات کو اس طرح سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ جس طرح انہیں سننے کا حکم دیا گیا تھا ان کے دل تھے مگر بصیرت سے اندھے تھے، ان کے کان تھے لیکن سچ بات سننے کے لیے تیار نہ تھے۔ ان کی آنکھیں تھیں مگر عبرت کی نظر سے دیکھنے سے محروم ہوچکی تھیں۔ ” بلاشبہ ہم نے بہت سے جن اور انسان جہنم کے لیے ہی پیدا کیے ہیں ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں بلکہ یہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں یہی ہیں جو غافل ہیں۔“ (الاعراف :179) (الحج :46) ” کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔“ (الملک :2) ” جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرنے والا ہے اور وہ زبردست، اور درگزر فرمانے والا ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے بڑی بڑی طاقتور اقوام کو ان کے جرائم کی وجہ سے تہس نہس کردیا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا تو انہیں دنیا میں کوئی پناہ دینے والا نہ تھا۔ تفسیر بالقرآن: نصیحت حاصل کرنے کے لیے کن باتوں کی ضرورت ہوتی ہے؟ : 1۔ ہم نے قرآن مجید کو واضح کردیا تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (بنی اسرئیل :41) 2۔ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کو مختلف عذابوں سے دو چار کیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (الاعراف :130) 3۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے جوڑے (نرومادہ) بنادیے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (الذاریات :49) 4۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (الزمر :27) 5۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (البقرۃ:221)