سورة محمد - آیت 0

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(شروع) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ محمد (ﷺ) کا تعارف : اس سورت کا نام نبی (ﷺ) کے اسم مبارک پر رکھا گیا ہے جو اس کی دوسری آیت میں موجود ہے۔ اسکے چار رکوع اور اڑتیس (38) آیات ہیں، اور یہ مدنی سورت ہے۔ اس سورت میں پہلے کفارکے عقیدہ اور کردار کا مسلمانوں کے افکار اور کردار کے ساتھ تقابل کیا گیا ہے اس کے بعد منافقوں کا مسلمانوں کے ساتھ موازنہ کیا ہے۔ کفار کے بارے میں ارشاد ہے کہ یہ لوگ نہ صرف اپنے کفرپہ اڑے ہوئے ہیں بلکہ اپنے عقائد اور اعمال کے ذریعے لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اس وجہ سے انکے تمام اعمال ضائع کر دئیے جائیں گے کیونکہ یہ حق کی بجائے باطل کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ تمہاری جنگ ہو تو ان کی اچھی طرح پٹائی کرو اور ان کی گردنیں اڑادو۔ ان میں جو باقی بچیں ان کو قیدی بنا لو پھر تمہیں اختیار ہے کہ انہیں فدیہ لے کر چھوڑ دو یا بغیر فدیے کے رہا کردیا جائے۔ کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کا کردار بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ اللہ پر حقیقی ایمان لائیں، صالح اعمال اختیار کرتے رہیں اور جو کچھ نبی (ﷺ) پر نازل ہوا اس پر یقین رکھیں کہ یہ سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے ان کے صالح عقیدہ اور عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نہ صرف ان کے گناہوں کو معاف کرے گا بلکہ ان کے حالات بھی درست کر دے گا۔ لہٰذا مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اللہ کے دین کی مدد کریں اللہ تعالیٰ انکی مدد فرماے گا۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مدد کرتا ہے اور کفار کی مدد نہیں کرتا۔ وجہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کا خیر خواہ ہے اور کفار کی خیر خواہی نہیں کرتا۔ کفار تو اس طرح زندگی گزار رہے ہیں جس طرح چوپائے زندگی گزارتے ہیں ان لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اس سورت کے آخر میں بنی (علیہ السلام) کو یہ حکم ہوا ہے کہ آپ کو لا الہ الا اللہ کا عقیدہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے اور اس پر قائم رہنا چاہیے۔ آپ اپنے لیے اور مومن مردوں اور عورتوں کے لیے استغفار کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے کو جانتا ہے اس کے بعد منافقوں کا مسلمانوں کے ساتھ موازنہ کیا گیا ہے منافقین کی حالت یہ ہے کہ قتال فی سبیل اللہ کی آیت نازل ہوتی ہے تو یہ مرنے کے خوف سے ایک دوسرے کی طرف یوں دیکھتے ہیں جیسے ان پر موت کی غشی طاری ہو ان کی سوچ اور کردار یہ ہے کہ اگر انہیں اختیار مل جائے تو یہ رشتہ داریوں کو توڑ ڈالیں گے اور زمین میں فساد کریں گے حقیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کی ہے جس وجہ سے یہ اندھے اور بہرے ہوچکے ہیں جب انہیں موت آئے گی تو فرشتے ان کے چہرے اور پیٹوں پر ماریں گے۔ اس کے بعد مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہیں اور اپنے اعمال کو باطل ہونے سے بچائیں آخر میں فرمایا کہ حالت جنگ میں کفار کے مقابلے میں کمزوری دکھانے کی بجائے ان کے خلاف ڈٹ جانا چاہیے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ تم ہی سر بلند رہو گے اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمھاری جگہ کوئی اور قوم لے آئے گا جو تمھارے جیسے نہیں ہوں گے۔