وَلَقَدْ مَكَّنَّاهُمْ فِيمَا إِن مَّكَّنَّاكُمْ فِيهِ وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَأَبْصَارًا وَأَفْئِدَةً فَمَا أَغْنَىٰ عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَلَا أَبْصَارُهُمْ وَلَا أَفْئِدَتُهُم مِّن شَيْءٍ إِذْ كَانُوا يَجْحَدُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ
اور ہم نے انہیں وہ مقدور دیا تھا جو تمہیں نہیں دیا ۔ اور ہم نے ان کو ہاتھ اور کان اور آنکھیں اور دل دیئے تھے سو نہ ان کے کان کچھ کام آئے اور نہ ان کی آنکھیں اور نہ ان کے دل ۔ اس لئے کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے اور جس بات پر وہ ٹھٹھا کرتے تھے اسی نے ان کو آگھیرا
فہم القرآن: ربط کلام : قوم عاد کے انجام کا ذکر کرنے کے بعد اہل مکہ کو ان کے انجام سے ڈرایا گیا ہے۔ قوم عاد جسمانی اعتبار سے اس قدر کڑیل جوان تھے کہ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ہم نے ان جیسے لوگ پیدا نہیں کیے۔ (الفجر :8) اللہ تعالیٰ نے عاد کو قوم نوح کے بعد زمین پر اقتدار اور اختیار بخشا۔“ (الاعراف :69) ” انھیں افرادی قوت اور مویشیوں سے نوازا گیا۔“ (الشعراء :133) یہ بڑے بڑے محلات میں رہتے تھے۔ کھیتی باڑی اور باغات میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔“ (الشعراء : 129تا133) اللہ تعالیٰ نے انہیں کان، آنکھیں اور دل عطا کیے لیکن انہوں نے اپنے کانوں، اپنی آنکھوں اور اپنے دلوں کو حقیقت کو پانے کے لیے استعمال نہ کیا۔ بلکہ اپنے عقیدے پر تکرار اور اصرار کرتے ہوئے ” اللہ“ کی آیات کا مذاق کرتے رہے۔ قوم عاد کا حوالہ دے کر اہل مکہ کو ارشاد فرمایا کہ اے مکہ والو! اللہ تعالیٰ نے نہ تمہیں ان جیسی جسمانی طاقت دی ہے اور نہ ہی ان سے بڑھ کر وسائل دیئے ہیں۔ سوچو اور غور کرو کہ قوم عاد ” اللہ“ کے عذاب کے سامنے نہ ٹھہر سکی تو تم کس طرح اس کے عذاب کے سامنے ٹھہر سکتے ہو؟ جس روّیے کی بنا پر انہیں نیست و نابود کیا گیا وہی روّیہ تمہارا ہے کہ تم نبی آخر الزماں (ﷺ) اور آپ کے ساتھیوں پر مظالم ڈھاتے ہو اور اللہ تعالیٰ کے ارشادات سے مذاق کرتے ہو۔ قوم عاد کو اللہ تعالیٰ نے کان، آنکھیں اور دل عطا فرمائے مگر انہوں نے ان سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا یہی تمہاری حالت ہے کہ تم بھی اپنے کانوں، آنکھوں اور دلوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو سننے کے لیے کان، دیکھنے کے لیے آنکھیں اور سوچنے کے لیے دل عطا فرمایا ہے تاکہ انسان حق بات کو سنے، بصیرت کی آنکھوں سے دیکھے اور اپنے دل سے فیصلہ کرے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے ؟ حق تک پہنچنے کے یہی وہ بنیادی ذرائع ہیں۔ اگر یہ ذرائع مفلوج ہوجائیں تو انسان کا ہدایت پانا نہ ممکن ہوجاتا ہے۔ ” ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں بلکہ یہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں یہی ہیں جو بالکل غافل ہیں۔“ (الاعراف :179) (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْئَۃً نُکِتَتْ فِیْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ھُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَھُوَ الرَّانُ الَّذِیْ ذَکَرَ اللّٰہُ ﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ﴾) (رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب بندہ کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل پرسیاہ نکتہ پڑجاتا ہے جب وہ گناہ چھوڑ دے اور توبہ و استغفار کرے تو اس کا دل پالش ہوجاتا ہے۔ اگر وہ دوبارہ گناہ کی طرف پلٹے تو سیاہی اس کے دل پر چڑھ جاتی ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے کہ (ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے گناہوں کی وجہ سے زنگ چڑھ چکا ہے۔) “ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کو جو کچھ دیا تھا وہ اہل مکہ کو حاصل نہیں تھا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو کان، آنکھیں اور دل دیئے ہیں مگر وہ ان سے حقیقی فائدہ نہیں اٹھاتے۔ تفسیربالقرآن : اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ تکرار اور استہزا کرنے والوں کا انجام : 1۔ استہزا کرنے والوں کو رسوا کن عذاب ہوگا۔ ( الجاثیہ :9) 2۔ اللہ کی آیات اور انبیاء سے مذاق کی سزا جہنم ہے۔ ( الکہف :106) 3۔ وہ چیز ان کو گھیرلے گی جس کا یہ مذاق کرتے تھے۔ (ہود :8) 4۔ یہ لوگ مذاق کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مذاق کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (التوبہ :79)