وَلَئِن قُتِلْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَحْمَةٌ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ
اور اگر خدا کی راہ میں تم مارے جاؤ یا مر جاؤ تو خدا کی رحمت اور مغفرت اس سے بہتر ہے جو تم دنیا میں جمع کرتے ہو ۔
فہم القرآن : (آیت 157 سے 158) ربط کلام : منافق قتل ہوں یا طبعی موت مریں ان کے لیے حسرتیں ہیں مسلمان شہید ہوں یا فطری موت مریں ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دنیا کی کوئی دولت مقابلہ نہیں کرسکتی۔ یہاں تجزیاتی انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص جو اللہ کے کلمہ کی سربلندی کے لیے میدان کار زار میں اترتا ہے اور شہید ہوجاتا ہے یا اسے اللہ تعالیٰ کی سمع واطاعت میں طبعی موت آجاتی ہے اس کا صلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی زندگی کی فرو گزاشتوں کو اپنے کرم سے معاف فرمائیں گے اور اس کے اعمال سے کہیں بڑھ کر اپنی رحمت سے نوازیں گے۔ یہ اجر و ثواب دنیا کی دولت و ثروت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ جس کو لوگ زندگی بھر جمع کرتے رہتے ہیں۔ ایسے مومن کو جب موت آتی ہے تو ملائکہ اس کا استقبال کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی مہمان نوازی کا اہتمام ہوتا ہے۔ ان کے مقابلہ میں جو لوگ بدکردار اور اللہ کے نافرمان ہوتے ہیں۔ وہ بری موت مرتے ہیں اور ان کا انجام جہنم ہوگا۔ یہاں کفار کی حسرتوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ تم دنیا میں کتنی مدت ٹھہرے رہو گے ؟ اگر تم قتل ہوجاؤ یا تمہیں طبعی موت آئے بالآخر تم نے اللہ کے حضور ہی جمع ہونا ہے۔ پھر موت سے فرار اور ان حرکتوں کا کیا فائدہ؟ ذرا سوچیے کہ کتنا فرق ہے ایک اللہ کے حضور عزت و تکریم کے ساتھ مہمان کی حیثیت سے حاضر ہے اور اسے دائمی آرام و انعام سے نوازا جا رہا ہے۔ دوسرا رو سیاہ‘ ذلیل و خوار اور مجرم بن کر پیش ہو رہا ہے اور اسے ہمیشہ کے لیے جہنم کے دہکتے ہوئے انگاروں میں پھینکا جا رہا ہیلہٰذا سوچو دنیا بہتر ہے یا آخرت۔ مسائل : 1۔ اللہ کا فرمانبردار اور اس کی راہ میں جہاد کرنے والا بخشا جائے گا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت دنیا کے مال و متاع سے بے انتہا گنا بہتر ہے۔ 3۔ کوئی طبعی موت مرے یا قتل ہوجائے سب کو اللہ کے ہاں جمع ہونا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ کی رحمت و بخشش دنیا کے خزانوں سے بہتر : 1۔ اللہ کا فضل ورحمت دنیا کے مال ومتاع سے بہتر ہے۔ (یونس :58) 2۔ اللہ کی رحمت دنیا کے خزانوں سے بہتر ہے۔ (الزخرف :32) 3۔ حکمت وبصیرت خیر کثیر ہے۔ (البقرۃ:269)