فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
سو ہم نے یہ قرآن تیری بولی میں آسان (ف 1) کردیا ۔ شاید وہ نصیحت قبول کریں
فہم القرآن: (آیت 58 سے 59) ربط کلام : الدّخان کی ابتداء قرآن مجید کے تعارف سے ہوئی اور اس کا اختتام بھی قرآن مجید کے بیان پر ہورہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی آخرالزمان (ﷺ) پر قرآن مجید اس لیے نازل فرمایا تاکہ آپ لوگوں کو اس کے ساتھ نصیحت فرمائیں۔ اس لیے قرآن مجید کو ” مَوْعِظَۃً“ اور ذکر کہا ہے۔ ذکر کا معنٰی ہے ایسی نصیحت جسے بار بار پیش کیا جائے اور اسے یاد رکھا جائے۔ ” مَوْعِظَۃً“ ایسی نصیحت کو کہتے ہیں جو سننے والے کے دل پر اثر کرے۔ ظاہر بات ہے کہ نصیحت وہی مؤثر اور بہتر ہوتی ہے جس کا انداز اور الفاظ آسان تر ہوں۔ اس لیے قرآن مجید کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے اس کو آسان کردیا ہے کیا کوئی اسے سمجھنے کے لیے تیار ہے ؟ (القمر :22) قرآن مجید کے آسان اور پرتاثیر ہونے کے باوجوداگر اسے لوگ نہیں مانتے تو پھر انہیں فرمائیں کہ تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی انتظار کرتے ہیں تاآنکہ اللہ تعالیٰ ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ صادر فرما دے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہمارے ساتھ الجھنے کی بجائے تم اپنا کام کرو ہمیں اپنا کام کرنے دو۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (ﷺ) کی زبان پر قرآن کو آسان تر کردیا۔ 2۔ قرآن مجید کو اس لیے آسان بنایا تاکہ لوگوں کو اس کی نصیحت سمجھنے میں مشکل پیش نہ آئے۔ 3۔ جو لوگ آسان اور پرتاثیر قرآن کو نہیں مانتے انہیں اللہ تعالیٰ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اور دین کو آسان بنایا ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ تم پر آسانی کرنا چاہتا ہے۔ (البقرۃ: 185، النساء :28) 2۔ دین میں جبر نہیں۔ (البقرۃ:256) 3۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان بنایا۔ (مریم : 97، القمر : 17، 22، 32، 40، الدخان :58)