ذَٰلِكَ الَّذِي يُبَشِّرُ اللَّهُ عِبَادَهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۗ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ ۗ وَمَن يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ
یہ وہ ہے جس کی بشارت اللہ اپنے بندوں کو دیتا ہے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے تو کہہ میں تم سے اس (قرآن) پر سوائے رشتہ کی محبت (ف 1) کے اور کچھ مزدوری نہیں مانگتا اور جو نیکی کمائے گا ہم اس کے لئے اس نیکی میں خوبی بڑھائینگے ۔ بےشک اللہ بخشنے والا قدردان ہے
فہم القرآن : ربط کلام : نبی (ﷺ) کی بعثت کا مقصد برے لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرانا اور صاحب ایمان اور صالح اعمال لوگوں کو ان کے تابناک مستقبل کی بشارت دینا تھا۔ اس پر آپ (ﷺ) کسی معاوضہ کے طلب گار نہ تھے۔ آپ (ﷺ) برے لوگوں کو ڈرانے اور نیک لوگوں کو بشارت دینے کے ساتھ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ میں اس دعوت کے بدلے تم سے کسی اجر کا طلبگار نہیں ہوں۔ البتہ تمہیں قرابت داری کا لحاظ تو رکھنا چاہیے۔ جو شخص نیکی کرے گا اللہ تعالیٰ اسے نیکی کرنے کی مزید توفیق عنایت فرمائے گا۔ اگر نیک لوگوں سے بتقاضأ بشریّت کوئی غلطی ہوگی تو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمائے گا۔ کیونکہ وہ معاف فرمانے والا، نیکی اور نیک لوگوں کی قدر کرنے والا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں آپ (ﷺ) کی زبان اطہر سے اس بات کا اظہار کروایا گیا ہے کہ آپ (ﷺ) ان لوگوں سے فرمائیں کہ میں قرابت داری کی محبت کے سوا تم سے کسی چیز کا سوال نہیں کرتا۔ ان الفاظ کے مفسّرین نے تین مفہوم لیے ہیں۔ نبی کریم (ﷺ) صبح و شام اخلاص اور جانفشانی کے ساتھ لوگوں کو برے اعمال اور اس کے انجام سے بچنے کی تلقین کرتے تھے۔ مگر ان کی حالت یہ تھی کہ وہ برے کاموں سے بچنے کی بجائے آپ (ﷺ) کی جان کے درپے ہوچکے تھے۔ 1 ۔اس پر آپ (ﷺ) نے انہیں سمجھایا کہ اگر تم برائی سے بچنے کے لیے تیار نہ ہو تو کم ازکم تمہیں معاشرتی حقوق اور نسبی رشتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ سیّدنا عباس (رض) سے کسی نے پوچھا کہ ﴿اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبیٰ﴾ کا کیا مطلب ہے ؟ سعید بن جبیر (رض) نے فوراً کہہ دیا اس سے آپ (ﷺ) کی آ ل مراد ہے۔ ابن عباس (رض) کہنے لگے تم جلد بازی کررہے ہو۔ بات یہ ہے کہ قریش کا کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس سے آپ کی کچھ نہ کچھ قرابت نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ انہیں کہیے کہ اگر تم اور کچھ نہیں کرتے توکم از کم قرابت ہی کا لحاظ رکھو ! (رواہ البخاری : کتاب التفسیر) 2 ۔میں تم سے اس دعوت کا کوئی صلہ نہیں مانگتا۔ سوائے اس کے کہ تم برے اعمال چھوڑ کر اپنے رب کے قریب ہونے کی کوشش کرو! یہی میری دعوت کا صلہ ہے۔ 3 ۔کچھ لوگوں نے اپنے مخصوص نظریات کی خاطر یہ تفسیر کی ہے کہ میں تم سے اس کے سوا کوئی اجر نہیں مانگتا کہ تم میرے رشتہ داروں کا بالخصوص اہل بیت کا خیال رکھو! ظاہر ہے کہ جن میں حضرت حسن اور حسین (رض) شامل ہیں۔ اس تفسیر کو بڑے بڑے مفسّرین نے من گھڑت قراردیا ہے۔ کیونکہ جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تھی تو اس وقت حضرت فاطمہ کا حضرت علی (رض) کیساتھ نکاح بھی نہیں ہوا تھا۔ (ضیاء القرآن : جلد 4حضرت پیر کرم شاہ صاحب بریلوی) مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دنیا کی کامیابی اور جنت کی خوشخبری دیتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو نیکی کی مزید توفیق دیتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو معاف کرنے والا اور ان کی نیکی کی قدر کرنے والا ہے۔ 4۔ نبی اکرم (ﷺ) نبوت کے کام پر کسی قسم کے معاوضے کے طلبگار نہیں تھے۔ تفسیربالقرآن : انبیائے کرام (علیہ السلام) نبوت کے کام پر کسی قسم کا معاوضہ وصول نہیں کرتے تھے : 1۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا میں تم سے اس تبلیغ پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا۔ (ہود :29) 2۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تم سے تبلیغ کا کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا۔ (الشعرا ء:127) 3۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میرا اجر اللہ رب العالمین پر ہے اور تم سے کچھ نہیں مانگتا۔ (الشعرا ء:145) 4۔ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا میں تم سے نہ اجر چاہتاہوں اور نہ کسی قسم کا تکلف کرتا ہوں۔ (ص :86) 5۔ ہود (علیہ السلام) نے کہا میرا اجر اللہ پر ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ (ہود :51) 6۔ میرا اجر اللہ پر ہے اور وہی ہر چیز پر گواہ ہے۔ (سبا :47)