اللَّهُ الَّذِي أَنزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ ۗ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ
اللہ وہ ہے جس نے کتاب سچے دین پر اتاری اور ترازو بھی (نازل کی) اور تو کیا جانے شاید قیامت قریب آلگی ہو
فہم القرآن : (آیت17سے18) ربط کلام : ” اللہ“ کی ذات اور صفات کے بارے میں جھگڑا کرنے والے لوگ اگر اپنے بے حیثیت دلائل کو حق کے ترازو میں رکھ کر وزن کرتے تو وہ عذاب شدید سے مامون ہو سکتے ہیں۔ ہر جھگڑا کرنے والے کے پاس کوئی نہ کوئی حجّت اور دلیل ہوا کرتی ہے۔ دلیل کو پرکھنے اور حق بات تک پہنچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اور ایک میزان نازل فرمائی ہے۔ اس لیے کہ لوگ کتاب الٰہی سے راہنمائی حاصل کریں اور اس میزان کے ذریعے اپنی دلیل کا وزن کریں۔ تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ ان کی حجت اور بات کی حیثیت کیا ہے۔ جہاں تک قیامت کی آمد کا معاملہ ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کس قدر قریب آپہنچی ہے۔ لوگ اپنی بات کا میزان میں وزن کرنے کی بجائے قیامت کے بارے میں جلد بازی کا اظہار کررہے ہیں اور اسی وجہ سے وہ لوگ آپ (ﷺ) سے کہتے کہ جس کی آمد سے ہمیں ڈرایا جاتا ہے وہ اب تک کیوں برپا نہیں ہوئی۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ قیامت پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس سے خائف رہتے ہیں۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ قیامت ہر حال میں برپا ہونی ہے۔ اس لیے وہ اس کی ہولناکیوں اور حساب و کتاب سے ڈرتے ہیں۔ جو لوگ قیامت کے بارے میں جھگڑتے ہیں وہ پرلے درجے کی گمراہی میں مبتلا ہیں۔ اس لیے کہ جو شخص قیامت کے برپا ہونے کا انکار کرتا ہے درحقیقت وہ کائنات کے نظام اور اپنی تخلیق کو بے مقصد قرار دیتا ہے۔ حالا نکہ اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز بے مقصد پیدا نہیں کی۔ قرآن مجید میں ” اَلْمِیْزَانُ“ کا لفظ 9دفعہ آیا ہے تاہم دو آیات میں ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے ایک میزان بھی نازل فرمایا ہے۔” اَلْمِیْزَانُ“ کے بارے میں اہل علم کے چار قسم کے خیالات ہیں۔ جو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق حق پر مبنی ہیں۔ 1۔” اَلْمِیْزَانُ“ درحقیقت الکتاب کی تشریح ہے۔2 ۔” اَلْمِیْزَانُ“ سے مراد قرآن وسنت کی تعلیم ہے جس کے ذریعے انسان حق وباطل کے درمیان وزن اور فرق کرسکتا ہے۔ 3۔” اَلْمِیْزَانُ“ سے مراد وہ عقل سلیم ہے جس کی روشنی میں آدمی حق اور ناحق کی پہچان کرتا ہے۔ 4 ۔” اَلْمِیْزَانُ“ سے مراد دنیا کی کسی چیز کی پیمائش یا وزن کرنے کا وہ پیمانہ ہے جس کے ذریعے لوگ اپنا لین دین کرتے ہیں۔ جن آیات میں ” اَلْمِیْزَانُ“ کا لفظ ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔ (الانعام : 152، الاعراف : 85، ھود : 84، 85، الشوریٰ: 17، الرحمن : 7، 8، 9، الحدید : 25) مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اور میزان نازل فرمایا ہے۔ 2۔ قیامت کا انکار کرنے والے لوگ پرلے درجے کے گمراہ ہیں۔ 3۔ قرآن مجید اور میزان کے ذریعے لوگوں کو حق و باطل کے درمیان امتیاز کرنا چاہیے۔ 4۔ جو لوگ قیامت پر ایمان نہیں رکھتے وہی اس کے بارے میں جلدی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ 5۔ قیامت پر ایمان رکھنے والے لوگ اس کی ہولناکیوں اور اپنے حساب و کتاب سے ڈرتے ہیں۔ تفسیربالقرآن : دور کی گمراہی میں مبتلا ہونے والے لوگ : 1۔ جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا وہ دور کی گمراہی میں مبتلا ہوا۔ (النساء : 116) 2۔ ” اللہ“ کے راستہ سے روکنے والے دور کی گمراہی میں ہیں۔ (النساء : 167) 3۔ سب سے بڑا گمراہ اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والا ہے۔ (القصص : 50) 4۔ کفار سے دوستی کرنے والا سیدھی راہ سے دور چلا جاتا ہے۔ (الممتحنۃ:1) 5۔ جس نے اللہ، رسول، ملائکہ، کتابوں اور دن آخرت کا انکار کیا وہ دور کی گمراہی میں مبتلا ہوا۔ (النساء : 136) 6۔ جو لوگ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں کجی تلاش کرتے ہیں یہ دور کی گمراہی میں مبتلا ہیں۔ (ابراہیم : 3)