وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِّتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَىٰ وَمَنْ حَوْلَهَا وَتُنذِرَ يَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۚ فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ
اور اسی طرح تجھ پر عربی زبان میں قرآن نازل کیا ۔ تاکہ تو بڑی بستی (مکہ) اور اس کے آس پاس ہونے والوں کو ڈرائے اور جمع ہونے کے دن سے ڈرائے جس میں شک نہیں ۔ ایک فریق بہشت میں ہوگا اور ایک فریق دوزخ میں
فہم القرآن : ربط کلام : مشرکین نے اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو اپنا خیرخواہ اور کارساز بنا لیا ہے۔ اِ ن کو ان کے برے عقیدے کے انجام سے ڈرانے کے لیے آپ کی طرف قرآن وحی کیا گیا ہے کہ آپ انہیں ان کے برے انجام سے متنبہ فرمائیں جس کا آغاز مکہ اور گردونواح سے ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے نبی (ﷺ) پر قرآن مجید نازل کیا جو عربی زبان میں ہے۔ عربی زبان میں نازل کرنے کی بنیادی طور پر تین وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ اگر قرآن مجید غیر عربی میں ہوتا تو نہ صرف آپ (ﷺ) کے مخاطبین کو سمجھنے میں مشکل پیش آتی ملکہ آپ کو بھی قرآن سمجھنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا۔ عربی زبان میں قرآن نازل فرماکر اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو اس دقت سے بچالیا۔ دوسری وجہ عربی میں قرآن نازل کرنے کی یہ ہے کہ اس زمانے میں صرف عربی زبان ہی ایسی زبان تھی جس کی جامعیت کا اہل علم اعتراف کرتے تھے اور آج بھی یہ زبان پوری دنیا کی زبانوں میں الفاظ اور قواعد کے اعتبار سے زیادہ جامع ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ آخر کسی نہ کسی زبان میں قرآن مجید نازل ہونا تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کو ان تمام اوصاف سے متصف فرمایا تھا جو آخر الزماں پیغمبر میں ہونا چاہیے تھے۔ آپ (ﷺ) عربی تھے اس لیے قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ آپ (ﷺ) امّ القریٰ اور اس کے گرد و پیش میں ر ہنے والے لوگوں کو آخرت کے ثواب اور احتساب سے آگاہ فرمائیں جس دن کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ اس دن ذات پات اور ہر قسم کی اونچ نیچ کے سوا صرف لوگ دو حصوں میں تقسیم ہوں گے۔ صحیح عقیدہ اور صالح اعمال رکھنے والے لوگ جنت میں جائیں گے اور بدبخت لوگوں کو جہنّم میں جھونکا جائے گا۔ قرآن مجید نے سورۃ الاعراف میں ایک تیسرے گروہ کا ذکر بھی کیا ہے جہنیں قیامت کے دن اصحاب الاعراف کے نام سے پکارا جائے گا۔ یہ بالآخر جنت میں جائیں گے۔ لیکن کچھ بنیادی کوتاہیوں کی وجہ سے انہیں ایک عرصہ کے لیے جنّت اور جہنّم کے درمیان روک لیا جائے گا۔ ان کا ذکر یہاں اس لیے نہیں کیا گیا۔ کیونکہ بالآخر وہ جنت کے مہمان ہوں گے۔ اس لیے انہیں جنتیوں میں ہی شمار کیا گیا ہے۔ قرآن مجید نے مکہ معظّمہ کو امّ القریٰ قرار دیا ہے۔ جس کا معنٰی ہے بستیوں کی ماں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب زمین و آسمان بنانے کا فیصلہ کیا تو سب سے پہلے بیت اللہ کے مقام پر زمین کا آغاز ہوا۔ (آل عمران : 96) دوسری وجہ یہ ہے کہ مکہ معظّمہ بیت اللہ کی وجہ سے ابتداء ہی سے مرجع خلائق رہا ہے۔ امّ القریٰ کے آس پاس سے مراد مکہ کے گرد و نواح کی بستیاں ہیں۔ اس آیت میں تبلیغ کا نیٹ ورک بتلایا گیا ہے کہ کام کا آغاز اپنے قریب سے کرنا چاہیے۔ جس کے لیے حکم ہے کہ اپنے آپ اور اپنے عزیز و اقربا کو جہنم کی ہولناکیوں سے بچاؤ۔ ( الشعراء : 214) اکثر اہل علم نے امّ القریٰ سے پوری دنیا مراد لی ہے۔ کیونکہ قرآن مجید کا ارشاد اور آپ (ﷺ) کا فرمان ہے کہ میں کالے اور گورے، عربی اور عجمی کے لیے رسول بنایا گیا ہوں اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک اسلام کا پیغام دنیا کے ہر گھر تک نہ پہنچ جائے۔[ رواہ احمد : مسند مقداد بن اسود] [ الاعراف : 158] ” اے پیغمبر (ﷺ) فرما دیجئے! اے لوگو میں تم تمام کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے نبی اکرم (ﷺ) پر قرآن مجید نازل کیا ہے۔ 2۔ قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے۔ 3۔ اللہ کے رسول (ﷺ) اہل مکہ اور پوری دنیا کو قیامت کے حساب و کتاب سے متنبّہ کرنے کے لیے مبعوث کیے گئے۔ 4۔ قیامت کے دن حساب و کتاب کے بعد لوگ دو اقسام میں تقسیم کیے جائیں گے۔ 5۔ ایک فریق جنتی ہوگا اور دوسرا فریق دوزخ میں جھونکا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن : قیامت کے دن بالآخر دو حصوں میں تقسیم ہوں گے : 1۔اس دن ایک گروہ کو جنت میں اور دوسرے گروہ کو دوزخ میں جانا ہوگا۔ ( الشوری:7) 2۔ جس کو نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا گیا ، وہ کہے گا آؤ میرا نامہ اعمال پڑھو۔(الحاقہ:19) 3۔ جس کو اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا کاش کہ مجھے دینامہ اعمال نہ دیا جا تا ۔ (الحاقۃ:20) 4۔جس کو اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا گیا اس کا حساب آسان ہوگا ۔ ( الانشقاقی: 8 ۔ 7) 5۔ جس کا اعمال نامہ پیٹھ کے پیچھے سے دیا گیا وہ موت کو پکار ےگاا اور دوزخ میں داخل کیا جائے گا ۔ ( الانشقاق:10تا12 )