سورة غافر - آیت 79

اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَنْعَامَ لِتَرْكَبُوا مِنْهَا وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے چوپائے (ف 2) پیدا کئے تاکہ تم ان میں سے بعض پر سوار ہو اور بعض کو ان میں سے کھاتے ہو

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت79سے81) ربط کلام : اگر باطل پرست حق پانا اور دنیا، آخرت کے نقصان سے بچنا چاہتے ہیں تو انہیں کم ازکم چوپاؤں اور کشتیوں پر ہی غور کرلینا چاہیے اگر بلا تعصّب غور کریں گے تو یقیناً ہدایت پائیں گے۔ اس آیت کریمہ سے پہلے آیت نمبر 60میں حکم دیا گیا ہے کہ صرف اپنے رب سے مانگو اور اس کی عبادت کرو اس کے بعد آفاق اور انسان کو اپنی تخلیق اور خوراک پر غور کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں پیدا کرنے اور پالنے والا صرف ایک ” اللہ“ ہے۔ بس اس کے حکم کے مطابق اور پورے اخلاص کے ساتھ صرف اسی ہی کی عبادت کرو کیونکہ وہ ہمیشہ زندہ رہنے والا اور زندگی و موت کا مالک ہے۔ پھر مشرکین کے رویه ان کے انجام کا ذکر کیا اور اس کے ساتھ ہی نبی (ﷺ) کو صبر کرنے کا حکم دیا اور اس بات سے آگاہ فرمایا کہ کہ کفر و شرک پر اصرار کرنے والے بالآخر نقصان اٹھائیں گے۔ اب کفر و شرک کے متوالوں کو ایک دفعہ پھر توحید کے ایسے دلائل دیئے جارہے ہیں۔ جن سے ہر کس وناکس کا واسطہ پڑتا ہے اور ہر دور کے انسانوں کو ان سے واسطہ پڑتا رہے گا۔ کون سا علاقہ اور ملک ہے جہاں چوپائے نہیں ہوتے اور لوگ ان سے استفادہ نہیں کرتے۔ لہٰذا توجہ دلائی جارہی ہے کہ جس اللہ سے مانگنے اور جس کی عبادت کا تمہیں حکم دیا جاتا ہے اسی نے تمہارے لیے چوپائے بنائے ہیں۔ جن میں ایسے بھی ہیں جن پر تم سواری کرتے ہو اور ان کا گوشت بھی کھاتے ہو اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کا دودھ، گوشت استعمال کرنے کے ساتھ ان سے اور بھی کام لیتے ہو اور جہاں جانا چاہتے ہو انہیں سواری کے طور پر استعمال کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کی نشانیاں دکھلاتا اور بتاتا ہے۔ لہٰذا تم اس کی کس کس قدرت کا انکار کرو گے۔ صرف اس بات پر غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو سواریاں عطا فرمائی ہیں بیک وقت ان کے کتنے فائدے ہیں۔ انسان کو ابتدائے آفرینش سے یہ چوپائے میسر ہیں کہ ہزاروں سال شہری اور دیہاتی انہیں سواریوں کو ہی استعمال کرتے رہے ہیں۔ اونٹ پر غور فرمائیں کہ آج بھی یہ ایسی سواری ہے جو صحراء میں کئی کئی دن کھائے پیے بغیر مسافر کو لیے پھرتا ہے۔ بے شک انسان نے تیز سے تیز تر سواریاں بنالی ہیں۔ مگر عام لوگوں کو صحراء میں صرف اونٹ ہی کام دیتا ہے۔ جس کا گوشت کھایا جاتا ہے اور اس کی مادہ کا دودھ پیا جاتا ہے۔ اس کے اور بھی فوائد ہیں۔ اسی طرح گھوڑے کو دیکھیں کہ بڑی بڑی حکومتوں نے جدید سے جدید ترین ہیلی کا پٹر، گاڑیاں اور ٹینک تیار کرلیے ہیں۔ مگر گھوڑے کے بغیر آج بھی گزارا نہیں۔ کیونکہ پہاڑوں میں نقل و حمل کے لیے گھوڑے اور گدھے ہی فوج کے کام آتے ہیں۔ گھوڑے، اونٹ اور ہاتھی کی طاقت اور وجود کا اندازہ کریں۔ اگر انہیں طبعاً سرکش بنایا جاتا تو انسان کے بس میں تھا کہ اتنے آرام سے ان پر سواری کرلیتا۔ اب کشتی پر غور کریں کہ اگر اللہ تعالیٰ انسان کو کشتی بنانے کی سمجھ نہ دیتا تونہ صرف دنیا کے انسان ایک دوسرے سے کٹ کررہ جاتے بلکہ باہمی تجارت بھی اس قدر محدود ہوتی کہ لوگ ایک دوسرے سے استفادہ کرنے سے محروم رہ جاتے۔ کشتی سازی اور کشتی رانی اللہ تعالیٰ کا لوگوں پر وہ فضل عظیم ہے کہ جس کا جتنا شکریہ ادا کیا جائے وہ کم ہے۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ کشتی بنانا سب سے پہلے نوح (علیہ السلام) کو سکھلایا گیا تھا۔ یہ بات اس لیے قرین قیاس نظر آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے نوح (علیہ السلام) پر وحی کی کہ تیری قوم میں جو لوگ ایمان لاچکے ہیں ان کے بعد کوئی شخص ایمان نہیں لائے گا ان پر افسوس کرنے کی بجائے آپ ہمارے سامنے ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی تیار کریں اور ظالموں سے مخاطب ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ اب غرق ہونے والے ہیں۔ (ھود : 36، 37) اللہ تعالیٰ انسان کو ہر حوالے سے اپنی قدرتیں دکھلاتا ہے جس کابرے سے برا شخص بھی اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس کے باوجود کافر اپنے رب کا انکار کرتا ہے اور مشرک اس کے ساتھ دوسروں کو شریک بناتا ہے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے چوپائے بنائے جن کا انسان دودھ پیتا، گوشت کھاتا اور ان پر سواری کرتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے چوپاؤں میں بے شمار فوائد رکھ دیئے ہیں۔ 3۔ انسان چوپاؤں کو اپنی مرضی سے ہانکتا اور ان سے کام لیتا ہے۔ 4۔ کافر اور مشرک اپنے رب کی قدرتوں کو جانتے ہیں مگر پھر بھی اس کے ساتھ کفر و شرک کرتے ہیں۔