وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْهُدَىٰ وَأَوْرَثْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ الْكِتَابَ
اور بےشک ہم نے موسیٰ کو ہدایت دی ، اور بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث کیا
فہم القرآن : (آیت53سے55) ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی راہنمائی کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کو ہدایت اور کتاب کے ساتھ مبعوث فرمایا اور بنی اسرائیل کو تورات کا وارث بنایا۔ جس میں عقل مندوں کے لیے نصیحت اور راہنمائی موجود ہے۔ کتاب سے مراد تورات ہے جو پہلی آسمانی کتابوں کی ترجمان ہے اور ہدایت سے مراد وہ راہنمائی ہے جس پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو چلنے کی توفیق دیتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بعد آنے والے انبیائے کرام (علیہ السلام) اور علماء کی ذمہ داری لگائی گئی کہ وہ اس کتاب کے مطابق لوگوں کی راہنمائی کریں۔ جو عقل مندوں کے لیے راہنمائی اور نصیحت کا سرچشمہ تھی۔ اولی الالباب کی تخصیص اس لیے کی گئی ہے کہ صحیح عقل مند وہی ہوتا ہے جو اللہ کی ہدایت پر مستقل مزاجی سے گامزن رہتا ہے۔ اسی لیے رسول محترم (ﷺ) کو حکم ہوا کہ آپ کے راستے میں جو مشکلات آرہی ہیں اس پر صبر فرمائیں اور یقین رکھیں کہ اللہ کا وعدہ سچا اور پکا۔ اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگو اور صبح و شام اپنے رب کی حمد کرتے رہو! آپ کے رب کا وعدہ سچا ہے وہ آپ کی ضرور مدد فرمائے گا۔ حالات کے جبر سے پریشان ہو کر صحابہ کرام (رض) باربار نبی کریم (ﷺ) کی خدمت میں عرض کرتے کہ اے اللہ کے رسول (ﷺ) اپنے رب سے عرض کیجیے کہ کوئی ایسا معجزہ نازل کرے جس سے کفار ایمان لانے پر مجبور ہوجائیں یا پھر انہیں تہس نہس کردیاجائے۔ ان حالات کی وجہ سے نبی اکرم (ﷺ) کے دل میں کئی باربار یہ خیال پیدا ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کیوں نازل نہیں ہورہی۔ اللہ کی مدد طلب کرنا ہر شخص کے لیے لازم ہے۔ لیکن نبی کا مقام اتنا ارفع ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ معمولی عجلت بھی پسند نہیں کرتا۔ آپ عجلّت پسندی پر اپنے رب سے معافی مانگیں۔ اس کی تشریح کرتے ہوئے بریلوی مکتبہ فکر کے ترجمان پیر کرم شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ افضل اور اولیٰ کا ترک عام لوگوں کے لیے جرم اور گناہ تصور نہیں ہوتا۔ لیکن مقرّبین صمدیت سے غیر اولیٰ کا صدور بھی قابلِ مؤاخذہ ہوتا ہے۔ یہاں بھی جس ذنب سے استغفار کی ہدایت کی جارہی ہے اس سے مراد ایسے امر سے استغفارہے جو بذات خود اگرچہ مباح اور جائز ہے لیکن نبی اکرم (ﷺ) کے مقام رفیع اور شان عالی کے شایان شان نہیں اور سالکان راہ محبت سے یہ چیز مخفی نہیں کہ منزل محبوب کی طرف ان کے سفر میں ایک لمحہ کے لیے توقف بھی ناقابل برداشت ہے اور لائقِ صدا استغفار ہے۔ (ضیاء القرآن جلد 4ص : 311، 312) صبح و شام تسبیح کرنے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہمیشہ اللہ کو یاد کرتے رہو! دوسرا یہ کہ ان مخصوص اوقات میں نماز ادا کرو! یہ دوسرے معنٰی لینے کی صورت میں اشارہ نماز کے ان پانچوں اوقات کی طرف ہے جو اس سورت کے نزول کے کچھ مدت بعد تمام اہل ایمان پر فرض کردیئے گئے۔ اس لیے عشیّ کا لفظ عربی زبان میں زوال آفتاب سے لیے کر رات کے ابتدائی حصے تک کے لیے بولا جاتا ہے جس میں ظہر سے عشاء تک کی چاروں نمازیں آجاتی ہیں۔ اور ابکار صبح کی پَو پھوٹنے سے طلوع آفتاب تک کے وقت کو کہتے ہیں جو نماز فجر کا وقت ہے۔ (تفہیم القرآن جلد ٤) (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ (ﷺ) یَا أَیُّہَا النَّاسُ تُوْبُوْا إِلَی اللَّہِ فَإِنِّی أَتُوْبُ فِی الْیَوْمِ إِلَیْہِ مائَۃَ مَرَّۃٍ) [ رواہ مسلم : کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ، باب اسْتِحْبَاب الاِسْتِغْفَارِ وَالاِسْتِکْثَارِ مِنْہُ] ” حضرت ابن عمر (رض) سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا لوگو! اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرو۔ بلاشبہ میں ہر روز سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات اور راہنمائی سے سرفراز فرمایا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو تورات کا وارث بنایا۔ 3۔ عقل مند لوگ ہی نصیحت حاصل کرتے اور اپنے رب کی ہدایت پر چلتے ہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہوتے ہیں۔ 5۔ انسان کو اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہنا چاہیے۔ 6۔ ہر مسلمان کو نماز کی پابندی اور بالخصوص صبح و شام اپنے رب کا ذکر کرنا چاہیے۔