سورة غافر - آیت 10

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنَادَوْنَ لَمَقْتُ اللَّهِ أَكْبَرُ مِن مَّقْتِكُمْ أَنفُسَكُمْ إِذْ تُدْعَوْنَ إِلَى الْإِيمَانِ فَتَكْفُرُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بے شک جو لوگ منکر ہیں ان کو پکار کر کہا جائیگا ۔ کہ جس قدر تم اپنی جانوں سے بیزار ہو اس سے زیادہ خدا تم سے بیزار ہوتا تھا جبکہ تم ایمان کی طرف بلائے جاتے تھے پھر تم منکر ہوئے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت10سے13) ربط کلام : جنتیوں کے بعد جہنمیوں کا ذکر۔ جہنمی جہنم میں نہ صرف اپنے علماء، پیروں اور لیڈروں پر غصہ نکالیں گے بلکہ وہ اپنے آپ پر بھی غضبناک ہوں گے۔ یہاں تک کہ اپنے ہاتھوں کو کاٹتے ہوئے کہیں گے کہ کاش! ہم رسول کا راستہ چھوڑ کر فلاں فلاں کو اپنا خیر خواہ نہ بناتے۔ (الفرقان : 27۔28) جب وہ اپنے ہاتھ کاٹ رہے ہوں گے تو رب ذوالجلال انہیں مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمائیں گے کہ جس طرح آج تمہیں اپنی حالت زار پر غصہ آرہا ہے۔ جب دنیا میں تم مجھ پر ایمان لانے سے انکار کرتے اور میرے شریک بناتے تھے تو مجھے اس سے کہیں زیادہ غصہ آتا تھا۔ لیکن میں نے تمہیں مہلت دئیے رکھی تاآنکہ تم جہنم میں داخل کردئیے گئے۔ اس وقت جہنمی فریاد پر فریاد کریں گے کہ اے ہمیں پیدا کرنے اور پالنے والے رب ! تو نے ہمیں دو مرتبہ پیدا کیا اور دو مرتبہ زندہ فرمایا اب ہم اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں۔ کیا ہماری نجات کا کوئی راستہ ہے۔ تمام اہل علم نے لکھا ہے کہ دو مرتبہ موت سے مراد ایک انسان کی وہ حالت ہے جب اس کا وجود عدم میں ہوتا ہے۔ دوسری مرتبہ جب زندگی گزار کر مرتا ہے۔ اسی طرح پہلے ماں کے پیٹ سے جنم لینا اور دوسری مرتبہ موت کے بعد زندہ ہونا ہے جسے ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔” تم کیوں اللہ کے ساتھ کفر کرتے ہو ؟ حالانکہ تم مردہ تھے اس نے تمہیں زندہ کیا پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا پھر اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔“ (البقرہ :28) قرآن مجید کے دوسرے مقام پر بیان ہوا ہے کہ کاش آپ دیکھیں کہ جب جہنمی جہنم میں سر جھکائے فریادیں کریں گے کہ اے ہمارے رب ہم نے سب کچھ دیکھ اور سن لیا۔ ہماری التجاء ہے کہ ہمیں ایک مرتبہ دنیا میں لٹادیجیے ہم نیک عمل کریں گے اور آپ کے ارشادات پر یقین کریں گے۔ (السجدۃ:12) اس کے جواب میں انہیں فرمایا جائے گا۔ تمہارا سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ جب تمہیں ایک اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم انکار کرتے تھے۔ جب اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کیا جاتا تھا تو تم مان لیتے تھے۔ یعنی آج تم مجھے ” اللہ“ مانتے ہو لیکن دنیا میں تم میرے ساتھ تو کفر و شرک کیا کرتے تھے سورۃ الزمر آیت 45میں بیان ہوا ہے کہ جب ایک اللہ کا ذکر ہوتا تھا تو تمہارے چہرے بگڑ جاتے تھے اور دوسروں کا ذکر ہوتا تو تمہارے چہرے کھل جاتے تھے۔ لہٰذا کفر و شرک کی وجہ سے تمہیں ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کہا جائے گا کہ فیصلے کا اختیار ” اللہ“ اعلیٰ اور اکبر کو ہے۔ یہ فرما کر انہیں مزید احساس دلایا جائے گا کہ تم دنیا میں اس لیے دوسروں کو اللہ کا شریک بناتے تھے کہ یہ بزرگ اور بت تمہیں اللہ تعالیٰ سے چھڑالیں گے یہ تمہاری خام خیالی تھی۔ اب دیکھ لو کہ بلندو بالاہستی کے سامنے کوئی دم نہیں مار سکتا لہٰذا اس کا فیصلہ اٹل ہے جو اپنی ذات و صفات کے لحاظ سے اعلیٰ ہے اور اقتدار اور اختیار کے اعتبار سے اس کا کوئی شریک نہیں۔ پھر دیکھ لو کہ اس کی بڑائی اور کبریائی کے سامنے کوئی دم نہیں مار سکتا۔ (عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- عَنِ النَّبِیِّ (): "يَطْوِي اللهُ السماواتِ يومَ القيامةِ ، ثم يَأْخُذُهُنَّ بيدِه اليُمْنَى ، ثم يقولُ : أنا المَلِكُ أين الجَبَّارُونَ ؟ أين المُتَكَبِّرُونَ ؟ ثم يَطْوِي الْأَرَضِينَ ، ثم يَأْخُذُهن بشمالِه ، ثم يقولُ : أنا المَلِكُ أين الجَبَّارُونَ ؟ أين المُتَكَبِّرُونَ) [ رواہ مسلم: باب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار] ” عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”روز قیامت اللہ آسمانوں کو لپیٹ کر اپنے دائیں ہاتھ میں لے لے گا اور پھر فرمائے گا: میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں وہ لوگ جو سرکش بنے پھرتے تھے؟ کہاں ہیں وہ لوگ جو متکبر بنے پھرتے تھے؟ پھر اللہ ساتوں زمینوں کو لپیٹ کر اپنے بائیں ہاتھ میں لے لے گا اور کہے گا: میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں جو سرکش بنے پھرتے تھے؟ کہاں ہیں جو متکبر بنے پھرتے تھے؟‘‘ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ جہنمیوں کے واویلا پر غضب کا اظہار کریں گے۔ 2۔ جہنمی اپنے کفر و شرک کی وجہ سے جہنم میں جھونکے جائیں گے۔ 3۔ جہنمی جہنم میں اپنے گناہوں کا اعتراف کریں گے مگر انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا تفسیربالقرآن: مشرکین کا ” اللہ“ کی توحید کے ساتھ وطیرہ : 1۔ کیا تو ہمیں ان معبودوں کی عبادت سے روکتا ہے جن کی عبادت ہمارے آباء کرتے رہے ہیں۔ (ھود :61) 2۔ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو کہتے ہیں ہمیں ہمارے آباء و اجداد کافی ہیں۔ (المائدۃ:104) 3۔ جب ان کے پاس اللہ وحدہٗ لاشریک کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل جل جاتے ہیں۔ (الزمر :45) 4۔ جب مشرکین کو توحید کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ تکبر کرتے ہوئے اسے ٹھکرا دیتے ہیں۔ (الصّٰفّٰت :35) 5۔ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ اللہ کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ (النساء :61) 6۔ جب ان سے کہا جاتا ہے اللہ کی نازل کردہ کتاب کی پیروی کرو تو جواب میں اپنے آباء واجداد کی پیروی کا حوالہ دیتے ہیں۔ (البقرۃ:170) 7۔ جب ان کو اللہ تعالیٰ کی کتاب کی پیروی کا حکم دیا جاتا ہے تو اپنے آباء اجداد کی پیروی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ( لقمان :21) 8۔ کفار کہتے تھے کہ تم ہمارے جیسے بشر ہو تم چاہتے ہو کہ ہم اپنے آباء واجداد کے معبودوں کو چھوڑ دیں۔ (ابراہیم :10) 9۔ انبیاء نے کفار کو توحید کی دعوت دی تو انہوں نے کہا ہم تمہیں اپنی زمین سے نکال دیں گے۔ (ابراہیم :13)