سورة الزمر - آیت 21

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الْأَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطَامًا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کیا تونے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان (ف 3) سے پانی اتارا ۔ پھر اسے زمین کے چشموں میں جاری کیا ۔ پھر اس سے مختلف رنگوں کی کھیتی نکالتا ہے پھر وہ زور پکڑتی ہے (یعنی تیار ہوتی ہے) پھر تو اس کو زرد دیکھتا ہے ۔ پھر خدا اسے حورا کر ڈالتا ہے ۔ بےشک اس میں عقلمندوں کے لئے نصیحت ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : جس اچھے قول کی متقی پیروی کرتے ہیں اس کی مثال بارش کی مانند ہے : اچھے قول سے مراد ” اللہ“ کا دین ہے جسے ” اللہ“ نے وحی کے ذریعے نبی آخر الزمان (ﷺ) پر نازل فرمایا ہے۔ اس کی مثال یہاں اور سورۃ البقرہ کی آیت 19میں بارش کے ساتھ دی گئی ہے۔” اس کی مثال آسمان سے بارش کی طرح جس میں اندھیرے گرج‘ اور بجلی ہے لوگ موت سے اور کڑک سے ڈر کر اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔“ (البقرۃ:19) اس مقام پر ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی نازل کرتا ہے جسے زمین کے سوتوں میں پہنچاتا اور چشمے جاری کرتا ہے۔ پھر اس کے ذریعے مختلف قسم کی فصلیں اگاتا ہے۔ ان میں ایسی جڑی بوٹیاں بھی ہوتی ہیں جو صرف بارش سے اگتی ہیں اور کچھ مدّت کے لیے لہلاتی ہیں او پھر گل سڑ جاتی ہیں۔ بارش کے نزول اور اس کے ذریعے اگنے والی مختلف قسم کی نباتات میں عقل سے کام لینے والوں کے لیے بہت سی نصیحتیں ہیں۔” لُبّ“ کا معنٰی عقل، فہم، فراست، دانائی اور سمجھ وغیرہ ہے۔ ” حضرت ابوموسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جس علم اور ہدایت کے ساتھ مجھے بھیجا ہے اس کی مثال زمین پر برسنے والی موسلا دھار بارش کی طرح ہے جو زمین کا قطعہ اچھا تھا اس نے اسے قبول کیا۔ اس نے گھاس اور سبزہ خوب اگایا۔ جو زمین سخت تھی پانی اس میں جذب ہونے کی بجائے کھڑارہا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچایا۔ لوگوں نے خود پانی پیا اور جانوروں کو پلایا اور پھر اس سے کھیتی باڑی بھی کی۔ زمین کا تیسرا ٹکڑا چٹیل میدان تھا نہ اس نے پانی جذب کیا اور نہ ہی پانی اس کے اوپر ٹھہرا۔ اللہ تعالیٰ نے جو دین دے کر مجھے مبعوث فرمایا اس دین کی فہم حاصل کرنے والے اور اس سے نفع اٹھانے والے کی مثال ایسے ہے کہ اس نے علم سے فائدہ اٹھایا خود سیکھا اور لوگوں کو بھی سکھلایا۔ دوسری زمین کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے دین کے علم کی طرف توجہ نہ کی اور نہ ہی اس بات کو قبول کیا جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا۔“ [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب فضل من علم] مسائل: 1۔ ” اللہ“ ہی آسمان سے بارش نازل کرنے والا ہے۔ 2۔” اللہ“ ہی بارش کے ذریعے مختلف قسم کی نباتات اگاتا ہے۔ 3۔ ” اللہ“ ہی بارش کے پانی کو زمین میں داخل کرتا اور چشمے جاری کرتا ہے۔ 4۔ بارش اور اس سے اگنے والی نباتات میں عقل والوں کے لیے نصیحت ہے۔ تفسیربالقرآن: اللہ ہی بارش نازل کرنیوالاہے : 1۔ زمین و آسمان بنانے اور بارش اتارنے والا ” اللہ“ ہے کیا اس کے ساتھ کوئی اور برسانے والا ہے ؟ (النمل :60) 2۔ ” اللہ“ وہ ذات ہے جو ہواؤں کو خوشخبری دینے کے لیے بھیجتا ہے جو بھاری بادل اٹھاتی ہیں۔ (الاعراف :57) 3۔ آسمانوں و زمین کی پیدائش، دن اور رات کی گردش، سمندر میں کشتیوں کے چلنے، آسمان سے بارش نازل کرنے، بارش سے زمین کو زندہ کرنے، چوپایوں کے پھیلنے، ہواؤں کے چلنے اور بادلوں کے مسخر ہونے میں قدرت کی نشانیاں ہیں۔ (البقرۃ :164) 4۔ قیامت برپا ہونے، بارش کے نازل ہونے، جو کچھ رحموں میں ہے اور انسان کل کیا کمائے گا اور اسے کہاں موت آئے گی انہیں صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ (لقمان :34) 5۔ تم ” اللہ“ سے مغفرت طلب کرو اور اس کی طرف رجوع کرو۔ وہ آسمان سے تمہارے لیے بارش نازل فرمائے گا اور تمہاری قوت میں اضافہ کرے گا۔ (ہود :52)