كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم ۚ مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ
تم بہتر امت ہو جو لوگوں کے فائدہ کے لئے نکالی گئی ہے کہ حکم دیتے ہو اچھی باتوں کا اور منع کرتے ہو بری باتوں سے اور ایمان رکھتے ہو اللہ پر (ف ١) اور اگر اہل کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے لئے بہتر تھا ، بعض ان میں سے مسلمان ہیں اور اکثر بےحکم ہیں ۔
فہم القرآن : (آیت 110 سے 111) ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ جس میں امت محمدیہ کا مقام اور کام بتلایا گیا ہے۔ امام رازی (رض) نے ایک نظریہ پر اکٹھا ہونے والے لوگوں کو امت قرار دیا ہے یہاں مسلمانوں کو صرف ایک امت نہیں بلکہ امت خیر کے معزز ترین لقب سے ملقب فرمایا گیا ہے اور یہ اعزاز صرف اس امت کو حاصل ہوا ہے۔ اس اعتبار سے امت محمدیہ پہلی تمام امتوں پر برتر اور فضیلت کی حامل قرار پائی ہے۔ جس کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔ (1) اللہ تعالیٰ پر کامل اور بلاشرکت غیرے ایمان لانا۔ (2) نیکی پر عمل پیرا ہو کر دوسروں کو اس کی دعوت دینا (3) برائی سے بچنا اور لوگوں کو اس سے منع کرنا، یہی امت کا اجتماعی فریضہ ہے۔ یہ فرض اتنا مشکل‘ عالمگیر اور ہمہ وقت کرنے کا ہے جو ایک جماعت کے کرنے سے بھی کما حقہ پورا نہیں ہوتا جب تک کہ امت کا ایک ایک فرد اپنے مقام پر اس کے لیے کوشاں نہ ہوجائے۔ رسول محترم (ﷺ) کا ارشاد گرامی ہے : (مَنْ رأٰی مِنْکُمْ مُّنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذٰلِکَ أَضْعَفُ الْاِیْمَانِ) [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب بیان کون النھی عن المنکر من الإیمان] ” تم میں جو آدمی کوئی برائی دیکھے اسے اپنے ہاتھ سے روکے، طاقت نہ ہو تو زبان کے ساتھ منع کرے اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں ہی اسے برا محسوس کرے لیکن یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔“ یہ فرض امت کے ہر فرد پر اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس حکم میں امر اور نہی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور امر ونہی کے الفاظ قوت و اقتدار کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کیونکہ قوت و اقتدار کے بغیر کسی حکم کا نافذ ہونا ممکن نہیں لہٰذا اس کے لیے اجتماعی قوت کی ضرورت ہے۔ یہ کام محض عوامی تحریک یا اجتماعی قوت کے طور پرہی نہیں بلکہ اس کے پیچھے للہیت اور ایمان کی روشنی ہونی چاہیے تب جا کر اقامت دین کا تقاضا پورا ہوسکتا ہے۔ ﴿اَلَّـذِيْنَ اِنْ مَّكَّنَّاهُـمْ فِى الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلَاةَ وَاٰتَوُا الزَّكَاةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَـهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلّـٰهِ عَاقِـبَةُ الْاُمُوْرِ﴾ (الحج: 41) یہ وہ لوگ ہیں جنہیں! اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ جہاں تک اہل کتاب کا تعلق ہے اگر وہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے لازم ہے کہ وہ اللہ اور اس کے آخری رسول پر ایمان لاتے ہوئے ابلاغ دین کے کام میں لگ جائیں اگر وہ ایسا کریں تو نہ صرف وہ امّتِ خیر میں شامل ہوں گے۔ بلکہ دنیا اور آخرت کی بھلائی کے حق دار ٹھہریں گے۔ ان میں کچھ لوگ تو ایمان لاتے ہیں جبکہ اکثریت نے نافرمانی کا رویّہ اختیار کیا ہوا ہے۔ ایسے لوگ اپنی ہرزہ سرائی اور شرارتوں کے ذریعے مسلمانوں کو عارضی اور معمولی نقصان تو پہنچا سکتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کو کامرانی کے راستے سے ہٹانا ان کے لیے ناممکن ہوچکا ہے کیونکہ مسلمان اتحاد و تقو ٰی اور ایمان باللہ کی بنیاد پر غزوۂ خندق کے بعد اس لائق ہوچکے تھے کہ اب انہیں قابل ذکر نقصان پہنچانا ان کے بس کا روگ نہیں رہا تھا۔ اسلام کے دشمن رزم گاہ حق و باطل میں اترنے کی کوشش کریں گے تو مقابلے کی تاب نہ لا کر پیٹھ پھیر کر بھاگنے پر مجبور ہوں گے۔ ان کی مدد کے لیے کوئی تیار نہیں ہوگا۔ بعض مفسرین نے اس آیت مبارکہ کو قرآن کی پیش گوئیوں میں شمار کیا ہے جس کی کامل ابتدا غزوۂ تبوک سے ہوئی اور پھر صدیوں تک یہود و نصارٰی مسلمانوں کی تاب نہ لا سکے۔ مسائل : 1۔ امت محمدیہ تمام امتوں سے بہتر ہے۔ 2۔ امت محمدیہ نیکی کا حکم دینے، برائی سے رکنے اور روکنے والی ہے۔ 3۔ اہل کتاب ایمان لائیں تو ان کے لیے بہتر ہوگا۔ 4۔ اہل کتاب میں ایمان لانے والے تھوڑے‘ کفر اور فسِق و فجور اختیار کرنے والے زیادہ ہیں۔ 5۔ سچے مسلمان متحد ہو کر اہل کتاب کے خلاف لڑیں تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن : مشرکین اور اہل کتاب کی پسپائیاں : 1۔ بدر میں مشرکین پسپا ہوئے۔ (آل عمران : 123تا127) 2۔ 8 ہجری کو اہل مکہ مغلوب ہوئے۔ (الفتح :1) 3۔ غزوۂ حنین میں مشرک شکست خوردہ ہوئے۔ (التوبۃ:26) 4۔ جنگ خندق میں مشرکین اور اہل کتاب کو شکست ہوئی۔ (الاحزاب : 25تا27)