تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۗ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِّلْعَالَمِينَ
یہ اللہ کی آیتیں ہیں ہم تجھے ٹھیک ٹھیک ان کو پڑھ کر سناتے ہیں اور اللہ جہان والوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔
فہم القرآن : (آیت 108 سے 109) ربط کلام : اس سے پہلے مجرموں کو سزا سنائی گئی تھی یہاں وضاحت فرمائی ہے کہ مجرموں کے چہرے کالے ہونا اور ان کا جہنم میں داخل ہونا اللہ تعالیٰ کی طرف سے زیادتی نہیں بلکہ یہ تو ان کے اعمال کا نتیجہ اور بدلہ ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے ضابطے اور فیصلے ہیں جو ذات کبریا خود آپ (ﷺ) کے سامنے پڑھ رہی ہے۔ اس کے منزل من اللہ ہونے میں ذرّہ برابر بھی شک نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق اور سچ ہیں۔ جو فرد اور قوم ان پر عمل پیرا ہوگی وہ صراط مستقیم پر گامزن ہوتے ہوئے نہ صرف دنیا میں ساحل مراد تک پہنچیں گی بلکہ آخرت میں ایک لامتناہی روشن مستقبل ان کا منتظر ہوگا اور جو لوگ ان کا انکار کریں گے ان کے لیے دنیا میں بربادی ہے اور آخرت میں روسیاہی ہوگی۔ برے انجام کے ساتھ دوچار ہونا ان کا یقینی ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر کوئی زیادتی نہ ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ نہ صرف لوگوں کو ظلم سے روکتے ہیں بلکہ اس نے اپنی ذات اقدس پر ظلم وزیادتی حرام قرار دی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی پر زیادتی کرنے کی اس لیے بھی ضرورت نہیں کیونکہ زمین و آسمان کا ذرّہ ذرّہ اس کا تابع فرمان اور زیر اقتدار ہے زیادتی تو وہ کرے جس کے اختیارات سے بڑھ کر کوئی نافرمانی کرنے والا ہو۔ انسان نافرمانی کرتا ہے تو اس مہلت کے مطابق کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھی ہے۔ آخرکار ہر کوئی اپنے اعمال کے ساتھ اس کے حضور پیش ہونے والا ہے اور آخرت میں ہر ایک کو اس کے کردار کا بدلہ چکا دیا جائے گا۔ (یَاعِبَادِیْ إِنِّیْ حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلٰی نَفْسِیْ وَجَعَلْتُہٗ بَیْنَکُمْ مُحَرَّمًا فَلَا تَظَالَمُوْا) [ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ وا آداب، باب تحریم الظلم] ” اے میرے بندو! یقینًا میں نے اپنے آپ پر ظلم کرنا حرام کردیا ہے اور میں اسے تمہارے درمیان بھی حرام قرار دیتاہوں پس تم آپس میں ظلم نہ کیا کرو۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ 2۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ ہی کے لیے ہے۔ 3۔ تمام معاملات اللہ کی طرف ہی لوٹائے جاتے ہیں۔ 4۔ ہر کام کا انجام اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔