سورة ص - آیت 0

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(شروع) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے (ف 2)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ ص کا تعارف: سورۃ صمکہ مکرمہ میں نازل ہوئی یہ پانچ رکوع اور اٹھاسی آیات پر مشتمل ہے۔ ربط سورۃ: سورۃ الصافات کے آخر میں اس بات کی تردید کی گئی ہے کہ نہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے اور نہ ہی ملائکہ کو اپنی بیٹیاں قرار دیا ہے اس تردید کے باوجود کافر اور مشرک حسد وبغض کی بنا پر وہی بات کیے جا رہے ہیں جس کا ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں اس پر نبی آخرالزمان (ﷺ) نے انہیں سمجھایا تو انہوں نے آپ (ﷺ) کو ساحر اور کذّاب کہا، مشرک اس بات پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ ایک الٰہ پوری دنیا کے لیے کس طرح کافی ہوسکتا ہے ان کا کہنا ہے کہ ہم نے یہ بات اپنے باپ دادا سے نہیں سنی اس وجہ سے وہ نبی (ﷺ) کی نبوت کے بارے میں شک کرتے ہیں۔ جس وجہ سے انہیں عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اس بیان کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم عاد، فرعون، ثمود، قوم لوط اور اصحاب ایکہ کا انجام بتلایا گیا ہے۔ سورت کے دوسرے اور تیسرے رکوع میں حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے پیش ہونے والے مقدمے کی تفصیل اور سرمایہ دارانہ ذہن کی عکاسی کی گئی ہے کہ انسان میں حد سے زیادہ مال کی ہوس پیدا ہوجائے تو اس کے سامنے کسی اصول اور رشتہ کا احترام باقی نہیں رہتا۔ پھر آدم (علیہ السلام) کے واقعہ کا اختصار پیش کرتے ہوئے بتلایا کہ شیطان نے معذرت پیش کرنے کی بجائے اپنے گناہ پر اصرار کرتے ہوئے کہا کہ میرے رب مجھے قیامت تک مہلت دے تاکہ میں لوگوں کو گمراہ کردوں۔ اللہ تعالیٰ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ تجھے قیامت تک کے لیے مہلت دی جاتی ہے۔ شیطان نے کہا اے رب تیری عزت کی قسم! میں تیرے مخلص بندوں کے سوا سب کو گمراہ کر کے چھوڑوں گا۔ جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تجھے اور تیرے ساتھیوں کے ساتھ جہنم کو بھردوں گا۔ چوتھے رکوع میں حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیماری اور ان کے صبر وشکر کا ذکر ہوا ہے۔ سورت کے آخر میں نبی اکرم (ﷺ) سے یہ اعلان کروایا گیا کہ آپ اس بات کا برملا اعلان فرمائیں کہ میں نبوت کے کام پر کسی اجر کا طالب نہیں اور نہ ہی میں کسی قسم کا تکلف کرنے والا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن لوگوں کے لیے خیر خواہی اور رہنمائی ہے جو لوگ اس رہنمائی اور خیر خواہی کا انکار کریں گے ایک مدت کے بعد ان کے انکار کا انجام ان کے سامنے آجائے گا۔