سورة الصافات - آیت 147

وَأَرْسَلْنَاهُ إِلَىٰ مِائَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور ہم نے اسے ایک لاکھ یا زیادہ آدمیوں کی طرف بھیجا

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت147سے163) ربط کلام : حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم نے شرک سے توبہ کی جس کے نتیجے میں عذاب سے بچ گئی۔ اہل مکہ کو اس واقعہ کے ذریعے سمجھایا گیا ہے کہ اگر اللہ کے عذاب سے بچنا چاہتے ہو تو شرک سے توبہ کرلو بصورت دیگر تباہی تمہارا مقدر ہوگی۔ قرآن مجید نے یہ بات واضح نہیں فرمائی کہ یونس (علیہ السلام) کی قوم کس قسم کے شرک میں ملوث تھی۔ تاہم آیات کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک کی دیگر اقسام کے ساتھ یونس (علیہ السلام) کی قوم میں یہ شرک بھی پایا جاتا تھا کہ وہ ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں خیال کرتے اور ان کے واسطے اور طفیل دعائیں کیا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ جنّات کے بارے میں بھی ان کے ایسے ہی خیالات تھے جس طرح جنات کے بارے میں اہل مکہ کے خیالات تھے۔ مچھلی کے پیٹ سے نکل کر یونس (علیہ السلام) اپنی قوم کے پاس گئے۔ جن کی اکثریت یا پھر تمام کے تمام لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اللہ کے حضور سچی توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا۔” اٰمَنُوْا“ کا لفظ استعمال فرما کرثابت کیا ہے کہ شرک کا عقیدہ رکھنے والا شخص ایماندار نہیں ہوتا۔ ان لوگوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ جنہیں ایک مدت تک مہلت دی گئی۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا اور ہے کہ یونس (علیہ السلام) کی قوم کے کتنے افراد تھے لیکن بات میں حسن پیدا کرنے کے لیے ” اَوْ یَزِیْدُوْنَ“ کے الفاظ ارشاد فرمائے جس میں حسن ہونے کے ساتھ بلاغت بھی پائی جاتی ہے تاکہ کلام سننے والے کے دل میں جستجو پیدا ہو۔ کلام کا رخ موڑکر اہل مکہ سے سوال کیا گیا ہے کہ کیا ملائکہ کی پیدائش کے وقت یہ لوگ موجود تھے ؟ کہ یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو مؤنث (FEMAIL)پیدا کیا ہے۔ آگاہ رہیں کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں اور جو ان کے منہ میں آتا ہے کہے جارہے ہیں۔ حالانکہ کسی کو ” اللہ“ کی اولاد قرار دینا سب سے بڑا جھوٹ اور بہتان ہے۔ کیا یہ نہیں سوچتے کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹوں کی بجائے اپنے لیے بیٹیاں پسند کی ہیں ؟ ظاہر بات ہے کہ اگر اسے اولاد کی محبت اور اپنے لیے معاونین کی ضرورت ہوتی تو وہ بیٹیوں کی بجائے بیٹے پسند کرتا۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اپنی طرف سے ہی فیصلے کیے جاتے ہو۔ آخر فیصلہ کرنے کے لیے عقلی یا نقلی دلیل تو ہونی چاہیے۔ ہاں اگر تمہارے پاس عقلی یا مشاہداتی دلیل نہیں تو کسی مستند کتاب سے حوالہ پیش کرو۔ جس سے ثابت ہوسکے کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ یا کسی اور کو اپنی اولاد کے طور پر پیدا کیا ہے۔ یہی تمہارا عقیدہ جنّات کے بارے میں ہے جس بنا پر جنات کو اللہ کا رشتہ دار ٹھہراتے ہو۔ حالانکہ جنّات بھی جانتے ہیں کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کا حسب و نسب جوڑا اسے پوچھاجائے گا۔ جس سے اللہ تعالیٰ نے پوچھ لیا وہ مارا جائے گا۔ یاد رہے کہ اہل مکہ یہ بھی ہرزہ سرائی کرتے تھے کہ جنات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رشتہ داری ہے۔ جس سے ملائکہ کی شکل میں بیٹیاں پیداہوئی ہیں۔ اس سے اپنے آپ یہ بات نکلتی ہے کہ ” نعوذباللہ“ اللہ تعالیٰ بھی جنسی خواہش رکھتا ہے۔ یہ ایسی خرافات ہیں کہ جس کے تصور سے ایک شریف آدمی کا دل کانپ جاتا ہے اس لیے معمولی عقل رکھنے والا انسان بھی پکار اٹھتا ہے کہ سبحان اللہ کہ ہمارا رب ہر خواہش اور کمزوری سے مبرا اور پاک ہے یہ باتیں تو مشرک کیا کرتے تھے۔ جو لوگ عقیدہ اور عمل میں مخلص ہیں یعنی شرک سے نفرت اور اجتناب کرتے ہیں ان سے یہ بات کوئی نہیں کہلواسکتا ایسی باتیں تو وہی لوگ کرتے ہیں جن پر جہنم واجب ہوچکی ہے۔ ” اے پیغمبر (ﷺ) ! فرما دیجیے کہ میری طرف اللہ تعالیٰ کی وحی آئی ہے کہ جنوں کی ایک بڑی جماعت نے قرآن سنا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے جو نیکی کی طرف راہنمائی کرتا ہے پس ہم اس پر ایمان لائے۔ ہم آئندہ اپنے رب کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہر ائیں گے۔ کیونکہ ہمارے رب کی شان بہت بلند ہے۔ اس کی نہ بیوی ہے اور نہ اولاد، یقیناً ہم میں سے بیوقوف لوگ اللہ کے بارے میں غلط باتیں کہتے ہیں۔“ (الجن : 1تا5) سنگین جرم : ﴿تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَٰنِ وَلَدًا وَمَا يَنْبَغِي لِلرَّحْمَٰنِ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا﴾ (مریم:90، 91، 92) ” قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں۔ اس بات پر کہ انہوں نے رحمٰن کی اولاد ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ رحمان کی شان نہیں کہ وہ کسی کو اولاد بنائے۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (ﷺ) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آدم کا بیٹا مجھے گالیاں دیتا ہے اور یہ اس کے لیے لائق نہیں اور وہ میری تکذیب کرتا ہے اور وہ بھی اس کے لیے لائق نہیں اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ میری اولاد ہے اس کا مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کیا جائے گا جس طرح مجھے پہلی بار پیدا کیا گیا ہے۔“ [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی ﴿وَہُوَ الَّذِی یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ﴾] جس سے رب ذوالجلال نے سوال کرلیا وہ پکڑا جائے گا : (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) اَنَّ النَّبِیَّ () قَالَ لَیْسَ اَحَدٌ یُّحَا سَبُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اِلَّاھَلَکَ قُلْتُ اَوَلَیْسَ یَقُوْلُ اللّٰہُ فَسَوْفَ یُّحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا فَقَالَ اِنَّمَا ذٰلِکَ الْعَرْضُ وَلٰکِنْ مَّنْ نُوْقِشَ فِیْ الْحِسَابِ یَھْلِکُ) [ رواہ البخاری : باب مَنْ سَمِعَ شَیْئًا فَرَاجَعَ حَتَّی یَعْرِفَہُ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی گرامی (ﷺ) نے فرمایا قیامت کے دن جس سے حساب لے لیا گیا وہ ہلاک ہوا میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! کیا اللہ تعالیٰ کا ارشاد نہیں کہ ” عنقریب اس کا آسان حساب ہوگا۔“ آپ (ﷺ) نے فرمایا یہ تو معمولی پیشی ہے جس شخص سے باز پرس ہوئی وہ ہلاک ہوگیا۔“ مسائل: 1۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ ملائکہ اللہ کی اولاد ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ 2۔ لوگ بلا دلیل جنات اور دوسروں کو اللہ تعالیٰ کے رشتہ دار بناتے ہیں۔ 3۔ ایسا عقیدہ رکھنے والے جہنمی ہیں۔ 4۔ اللہ کے مخلص بندے ایسی بات نہیں کہتے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ اولاد اور ہر قسم کی کمزوری سے پاک ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے پاک اور برتر ہے۔ (النحل :1) 2۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ شریکوں سے بلند و بالا ہے۔ (النحل :3) 3۔ اللہ تعالیٰ غائب اور حاضر کو جاننے والا ہے اللہ شریکوں کی شراکت سے بلند ہے۔ (المومنون :92) 4۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے بالا ہے۔ (النمل :63) 5۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں پیدا کیا، رزق دیا، تمہیں مارے گا اور تمہیں زندہ کرے گا۔ کیا تمہارے شرکا میں سے بھی کوئی ہے جو یہ کام کرسکے؟ اللہ مشرکوں کے شرک سے پاک ہے۔ (الروم :40) 6۔ قیامت کے دن آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے شرک سے پاک و برتر ہے۔ (الزمر :67) 7۔ اللہ تعالیٰ اولاد سے پاک ہے۔ (الانعام :101) 8۔ عزیر (علیہ السلام) ” اللہ“ کے بیٹے نہیں اس کے بندے تھے۔ ( التوبۃ:30) 9۔ حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم ( علیہ السلام) اِلٰہ نہیں اللہ کے بندے تھے۔ (المائدۃ:75) 10۔ کسی کو اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دینا سنگین ترین جرم ہے۔ (مریم : 91، 92)