سورة الصافات - آیت 139

وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور بےشک (ف 1) یونس (علیہ السلام) رسولوں میں تھا

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن:(آیت139سے146) ربط کلام : حضرت لوط (علیہ السلام) کے بعد حضرت یونس (علیہ السلام) کا ذکر گرامی۔ حضرت یونس (علیہ السلام) بھی اللہ کے برگزیدہ انبیائے کرام (علیہ السلام) میں شامل ہیں۔ انہیں نینوا کے علاقہ میں ایک لاکھ سے زائد لوگوں کی آبادی میں مبعوث کیا گیا۔ نہ معلوم حضرت یونس (علیہ السلام) نے کتنا عرصہ اپنی قوم کو سمجھایا لیکن قوم سدھرنے کی بجائے بگڑتی چلی گئی۔ اس پر یونس (علیہ السلام) نے قوم کو انتباہ کیا کہ اگر تم راہ ہدایت پر نہ آئے تو فلاں دن تمہیں اللہ کا عذاب آلے گا لیکن اس دن عذاب نہ آیا جس پر قوم نے حضرت یونس (علیہ السلام) کو طعنے دیئے اور جھوٹا قرار دیا جس پر یونس (علیہ السلام) پریشان ہو کر اللہ کی اجازت کے بغیر ہجرت کے لیے نکل کھڑے ہوئے جس کے لیے قرآن مجید نے ” اَبَقَ“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنٰی ہے آقا سے بھاگنے والا غلام۔ حضرت یونس (علیہ السلام) قوم سے ناراض ہو کر اپنے شہر سے نکلے اور دریا عبور کرنے کے لیے کشتی پر سوار ہوئے کشتی دریا میں تھوڑی دیر چلی تو ہچکولے کھانے لگی۔ ملاح نے اپنے تجربے کی بنیاد پر کہا کہ جب کشتی ہموار موسم میں ہچکولے کھانے لگے تو میرا تجربہ ہے کہ کشتی میں کوئی ایسا شخص ضرور سوار ہوتا ہے جو اپنے مالک سے بھاگ آکر آیا ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ آج بھی کوئی سوار اس طرح ہی اپنے مالک سے بھاگ کر آیا ہے۔ اس پر قرعہ اندازی کی گئی بالآخر قرعہ یونس (علیہ السلام) کے نام نکلا جس پر یونس (علیہ السلام) نے کشتی کو بچانے کے لیے دریا میں چھلانگ لگا دی۔ جونہی دریا میں کودے تو ایک مچھلی نے انہیں نگل لیا۔ وہ نہایت افسردگی کے عالم میں مچھلی کے پیٹ میں جاکر ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ کو پکارنے لگے،” لَا اِلٰہَ الاَّاَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ“ اے اللہ تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں بے شک میں ظالموں میں سے ہوں۔“ یونس (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں اللہ تعالیٰ کا نام لینے کی بجائے ” اَنْتَ“ کی ضمیر استعمال کی جس سے ان کے احساسات اور جذبات کی ترجمانی ہوتی ہے کہ اتنی بڑی مصیبت میں مبتلا ہونے اور مچھلی کے پیٹ میں جانے کے باوجود ” اَنْتَ“ کی ضمیر استعمال کرتے ہیں جو واحد حاضر کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ گویا کہ انتہائی پریشانی کے باوجود اپنے رب کی قربت محسوس کرتے ہوئے یوں پکارتے ہیں گویا کہ رب تعالیٰ ان کے سامنے موجود ہیں یہی ذکر کا بہترین طریقہ ہے۔ جس طرح حدیث میں نماز کے بارے میں آیا کہ نماز اس طرح پڑھنی چاہیے جیسے نمازی اپنے رب کو دیکھ رہا ہے۔ اگر یہ نہیں تو یہ تصور تو ہونا چاہیے کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے۔ (رواہ البخاری : کتاب الایمان) اس بات کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اگر یونس (علیہ السلام) مجھے یاد نہ کرتا تو قیامت کے دن تک مچھلی کے پیٹ میں رہتا اور مچھلی کے پیٹ سے ہی اٹھایا جاتا۔ گویا کہ مچھلی کی موت کے ساتھ ہی انہیں موت آجاتی۔ اور قیامت کو مچھلی کے پیٹ سے نکالے جاتے۔ یونس (علیہ السلام) کی فریاد کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور مچھلی کو حکم دیا کہ یونس (علیہ السلام) کو دریا کے کنارے اگل دے۔ یونس (علیہ السلام) مچھلی کے پیٹ سے باہر آئے تو اتنے کمزور ہوچکے تھے کہ چلنے پھرنے کے قابل نہ تھے۔ اس حالت میں یونس (علیہ السلام) دریا کے کنارے بے سدھ ہو کر لیٹے ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی خوراک اور سائے کے لیے ایک بیل دار پودا اگا دیا جس کے بارے میں مفسرین کا خیال ہے کہ وہ کدو یا بڑے بڑے پتوں والا بیل دار درخت تھا۔ اس مقام پر ضرورت سے زیادہ عقل رکھنے والے حضرات یہ کہتے ہیں کہ مچھلی کے پیٹ میں جا کر کسی انسان کا زندہ نکل آنا غیر ممکن ہے۔ لیکن پچھلی ہی صدی کے اواخر میں انگلستان کے ساحل کے قریب ایک واقعہ پیش آچکا ہے جو ایسے لوگوں کے دعوے کی تردید کردیتا ہے۔ اگست 1891ء میں ایک جہاز پر کچھ مچھیرے وہیل کے شکار کے لیے گہرے سمندر میں گئے۔ وہاں انہوں نے ایک بہت بڑی مچھلی کو جو 20فٹ لمبی 50فٹ چوڑی اور سوٹن وزنی تھی شکاریوں نے سخت زخمی کردیا مچھلی کو قابو کرتے ہوئے جمیز بار ٹلے نامی ایک مچھیرے کو اس کے ساتھیوں کے سامنے مچھلی نے نگل لیا۔ دوسرے روز وہی مچھلی اس جہاز کے لوگوں کو مری ہوئی مل گئی۔ انہوں نے بمشکل ہی اسے جہاز پر چڑھایاجب اس کا پیٹ چاک کیا تو بارٹلے اس کے اندر زندہ برآمد ہوگیا۔ یہ شخص مچھلی کے پیٹ میں پورے 60گھنٹے رہا تھا۔ (اردو ڈائجسٹ، فروری 1964ء) غور کرنے کی بات ہے کہ اگر معمولی حالات میں فطری طور پر ایسا ہونا ممکن ہے تو غیر معمولی حالات میں اللہ تعالیٰ کے معجزے کے طور پر ایسا ہونا کیوں غیر ممکن ہے ؟ 2005رمضان المبارک میں آزاد کشمیر میں شدید زلزلہ آیا۔ اس زلزلہ میں پانچ اور چھ سیکنڈ کے اندر اسی ہزار افراد موت کا لقمہ بنے گھروں کے گھر ملیامیٹ ہوگئے۔ مواصلات کا نظام مکمل طور پر درہم برہم ہوگیا۔ تقریباً ایک سال تک ہیلی کا پٹروں کے ذریعے لوگوں تک خوراک پہنچائی جاتی رہی اور کئی ماہ تک مکانوں سے لاشیں نکالنے کا سلسلہ جاری رہا۔ مظفر آباد شہر میں ایک بلڈنگ کاملبہ صاف کیا جارہا تھا کہ ایک گھر سے چھ ماہ بعد جواں سال لڑکی زندہ ملی جس کا سرکاری طور پر اسلام آبادہسپتال میں علاج کیا گیا جو دو مہینے کے بعدلڑکی چلنے پھرنے کے قابل ہوگئی۔ ذکر کے فائدے : ﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَ اذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْن﴾ [ الانفال :45] ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو جب تم کسی گروہ کا مقابلہ کرو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَال اللّٰہُ تَعَالٰی أَنَا مَعَ عَبْدِیْ حَیْثُمَا ذَکَرَنِیْ وَتَحَرَّکَتْ بِیْ شَفَتَاہُ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ ﴿لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَك﴾ الخ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتاہوں‘ وہ جہاں کہیں بھی میرا ذکر کرے اور جب اس کے ہونٹ میرے ذکر کے لیے حرکت کرتے ہیں۔“ مسائل: 1۔ یونس (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے رسول اور نبی تھے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کے لیے ایک بیلدار درخت اگادیا۔ 3۔ یونس (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کو یاد نہ کرتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے۔ تفسیر بالقرآن: قرآن مجید میں حضرت یونس (علیہ السلام) کا تذکرہ : 1۔ اللہ تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کی طرف وحی نازل فرمائی۔ (النساء :163) 2۔ یونس (علیہ السلام) رسولوں میں سے تھے۔ (الصّٰفّٰت :139) 3۔ اللہ تعالیٰ نے اسماعیل، یسع، یونس اور لوط کو جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ (الانعام :86) 4۔ یونس (علیہ السلام) کی اللہ نے دعا قبول فرما کر مچھلی کے پیٹ سے نجات دی۔ (الانبیاء :88) 5۔ حضرت یونس کی قوم کے سوا کسی قوم کو عذاب کے وقت ایمان لانے کا فائدہ نہ ہوا۔ (یونس :98)