سورة آل عمران - آیت 98

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ شَهِيدٌ عَلَىٰ مَا تَعْمَلُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تو کہہ اے اہل کتاب تم خدا کی آیتوں سے کیوں منکر ہوتے ہو اور اللہ کے روبرو ہے جو تم کرتے ہو ۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن :(آیت 98 سے 99) ربط کلام : حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے حوالے سے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بانئ کعبہ تسلیم نہ کرنا اور ملت ابراہیم سے انحراف کرنا کفر ہے۔ اہل کتاب ایسے حقائق کا انکار کرتے ہیں جو قیامت تک زندہ شہادت کے طور پر دنیا میں موجود ہیں اور رہیں گے۔ یعنی بیت اللہ کا مرکز ہدایت اور اللہ تعالیٰ کی رحمت و برکت کا مرجع قرار پانا‘ زم زم کی برکات اور اس کا ہر وقت رواں دواں رہنا‘ مقام ابراہیم کی شکل میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قدموں کے نشانات ثبت ہونا‘ صفا اور مروہ کا حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی سعی کی خاموش گواہی دینا۔ زمین کی چھاتی پر نسل در نسل کروڑہا انسانوں کا خاندان ابراہیم کی خدمات کی شہادت دینا۔ اتنی عظیم اور زندہ وجاوید شہادتوں کو مسترد کردینے والی قوم کو قرآن مجید اہل کتاب کے معزز لفظ سے پکارتے ہوئے بار بار متوجہ کرتا ہے کہ اے اہل کتاب! اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا انکار کیوں کرتے ہو اور ہدایت یافتہ لوگوں کو منحرف کرنے کی کوشش کے کیوں درپے ہو؟ جبکہ تمہارا ضمیر قرآن مجید کی تصدیق‘ نبی آخر الزّماں کا اعتراف اور شعائر اللہ کی شہادت دیتے ہوئے تمہارے کفر پر تمہیں ملامت کرتا ہے۔ مسائل : 1۔ اہل کتاب جان بوجھ کر حقائق کا انکار کرتے ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ انسان کی ہر حرکت کو جانتا ہے۔ تفسیربالقرآن : اللہ تعالیٰ گواہ ہے : 1۔ اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔ (الحج :17) 2۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے عمل پر گواہ ہے۔ (یونس :46) 3۔ اللہ تعالیٰ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے۔ (الاعلیٰ:7)