سورة الصافات - آیت 88

فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

پھر تاروں (ف 2) پر ایک بار نگاہ کی

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن:(آیت88سے93) ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا معبودان باطل کے خلاف اقدام۔ نہ معلوم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کتنا عرصہ باپ اور قوم کو سمجھاتے رہے۔ طویل عرصہ تک سمجھانے کے باوجود جب قوم سمجھنے کے لئے تیار نہ ہوئی تو آپ نے سوچا کہ اگر دلائل انکی سمجھ میں نہیں آرہے اور یہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ان مورتیوں پر مرے جا رہے ہیں۔ تو اب ان کے معبودوں کی عملی طور پرخبر لینی چاہئے، تب بلا خوف وخطر فرمایا کہ اللہ کی قسم یہ مجسمے میرے لیے ناقابل برداشت ہوگئے ہیں۔ (الانبیاء :57) اتفاق کی بات دیکھیے اسی کشمکش میں قوم کا میلہ آجاتا ہے۔ مشرک قوم ایسے میلوں میں نہ صرف خود جاتی ہے۔ بلکہ ہر کسی کو ان خرافات میں دیکھنا چاہتی ہے۔ اسی شوق غلیظ کے ساتھ انہوں نے جناب ابراہیم (علیہ السلام) کو دعوت دی آئیں آپ بھی چلیں، لیکن انہیں کیا معلوم کہ ابراہیم (علیہ السلام) تو ایسی خرافات کو مٹانے کے لیے دن رات پیچ و تاب کھا رہے ہیں آپ نے ارشاد فرمایا۔ ﴿فَنَظَرَ نَظْرَۃً فِی النُّجُوم۔ فَقَالَ إِنِّی سَقِیْمٌ﴾[ الصّٰفٰت 88، 89] ” تاروں کی طرف دیکھا اور کہا میں بیمار ہوں۔“ اس جملے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ کچھ بیمار ہوں یا اس لیے آسمان کی طرف دیکھا ہو کہ اے مالک! اب میرے اعلان پر عمل کرنے کا وقت آگیا ہے تو میری مدد فرما۔ یا پھر اس حیرانگی سے دیکھا ہو جیساکہ بعض موقعوں پر آدمی حیران ہو کر آسمان کی طرف دیکھتا ہے کہ عجب لوگ ہیں میرے عقیدے کو جاننے کے باوجود مجھے دعوت میلہ دے رہے ہیں۔ بعض لوگوں نے یہ لکھا ہے کیونکہ آپ کی قوم ستاروں سے شگون لیتی تھی اس لئے آپ نے اوپر دیکھ کر ”إِ نِّیْ سَقِیْمٌ“ کہا تاکہ یہ اصرار نہ کریں اور اپنے عقیدہ کے مطابق تاثر لے کر بغیر تکرار کے چلے جائیں (واللہ اعلم) بہرحال وہ آپ کو چھوڑ کر عوامی میلے کی طرف چل دے ئے۔ ﴿فَتَوَلَّوْا عَنْہُ مُدْبِرِیْنَ [ الصّٰفٰت :90] ” چنانچہ وہ انہیں پیچھے چھوڑ گئے۔“ دن گنے جاتے تھے جس دن کے لیے اب وہ وقت آیا ہے جو کہا تھا اسے کر دکھایا جائے چنانچہ مندر میں گھس گئے اور غیرت وجلال میں آکر فرمانے لگے۔ ﴿فَرَاغَ اِِلٰی آلِہَتِہِمْ فَقَالَ اَلاَ تَاْکُلُوْنَ۔ مَا لَکُمْ لاَ تَنْطِقُوْنَ﴾[ الصّٰفٰت : 91، 92] ” ابراہیم چپکے سے ان کے معبودوں میں جا گھسے اور کہا تم کھاتے کیوں نہیں؟ تم بولتے کیوں نہیں ہو؟ اللہ اللہ! آپ کی غیرت وجلالت کا عجیب منظر ہوگا۔ معلوم تھا اور خود ہی تو اعلان کیا کرتے تھے یہ نہ سنتے ہیں، نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی بول سکتے ہیں۔ لیکن آج خود ہی بلائے جا رہے ہیں۔ کبھی مومن پر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ غیرت توحید سے لبریز اور دوسروں کو درس توحید دینے کے لیے ایسا بھی کرتا ہے، جیساکہ فاروق اعظم (رض) نے طواف کعبہ کے وقت حجر اسود کو کہا تھا ” میں جانتا ہوں تیری حقیقت کو کہ تو ایک پتھر کا ٹکڑا ہے۔ میں تو تجھے اس لیے چوم رہا ہوں کیونکہ میں نے سرور گرامی (ﷺ) کو تجھے چومتے ہوئے دیکھا تھا۔ دیکھتے جائیے اب باطل معبودوں کی شامت آنے والی ہے۔“ ﴿فَرَاغَ عَلَیْہِمْ ضَرْبًا بالْیَمِیْنِ ﴾[ الصّٰفٰت :93] ” پھر ان کو دائیں ہاتھ سے پھوڑنا شروع کیا۔“ ابراہیم (علیہ السلام) بڑے ذہین تھے : ﴿فَجَعَلَہُمْ جُذَاذًا إِلَّا کَبِیْرًا لَہُمْ لَعَلَّہُمْ إِلَیْہِ یَرْجِعُوْنَ﴾[ الأنبیاء :58] ” پھر بتوں کو توڑ پھوڑ کر ریزہ ریزہ کردیا مگر بڑے کو چھوڑ دیا تاکہ وہ اسکی طرف رجوع کریں۔“ جتنے بھی نبی اپنے اپنے زمانے میں تشریف لائے وہ اپنے دور کے سب سے بڑے ذہین اور فطین تھے۔ دیکھیے ابراہیم (علیہ السلام) کتنے زیرک اور فطین ہیں کہ سب بتوں کو توڑا مگر بڑے کو چھوڑ دیا تاکہ جب قوم واپس آکر دیکھے گی تو اس حادثے پر غور وفکر کرتے ہوئے یقیناً اس کی طرف رجوع کرے گی۔ اگر ” اِلَیْہِ“ کی ضمیر (اشارہ) بڑے بت کی طرف ہو تو مطلب یہ ہے کہ لوگ واپس آکر سوچیں گے کہ بڑے میاں نے کسی بات پر ناراض ہو کر چھوٹوں کا تیا پانچہ کردیا ہے۔ یا کم ازکم یہ تو ان کے دلوں میں خیال آئے گا کہ واقعی ابراہیم سچ کہتا تھا کہ یہ سب بے کار ہیں۔ نہ انہوں نے اپنے آپ کو بچایا اور نہ یہ بڑے میاں ہی روک سکے ہاں اگر ” اِلَیْہِ“ کا اشارہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف ہو تو معنی بالکل صاف ہے کہ جب میرے پاس آئیں گے تو بات کرنے کا مزید موقعہ مل جائے گا۔ میں کہونگا مجھ سے پوچھنے کی بجائے اپنے عقیدے کے مطابق ان سے پوچھو اگر واقعی بت بولتے ہیں تو ان کا بڑا تو موجود ہے اس سے پوچھ لیجئے۔ ﴿قَالُوْا مَنْ فَعَلَ ہٰذَا بِاٰ لِہَتِنَا إِنَّہُ لَمِنَ الظَّالِمِیْنَ۔ قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًی یَّذْکُرُہُمْ یُقَالُ لَہُ إِبْرَاہِیْمُ﴾[ الانبیاء : 59، 60] ” کہنے لگے ہمارے خداؤں کا یہ حال کس نے کیا ہے؟ وہ بڑا ہی ظالم ہے۔ کچھ کہنے لگے ہم نے ان کے خلاف ایک ابراہیم نامی نوجوان کو چیلنج کرتے سنا ہے۔“ نبی معظم (ﷺ) کی سنت اور فرمان : (عَنْ أَبِی الْہَیَّاجِ الأَسَدِیِّ قَالَ قَالَ لِی عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ (رض) أَلاَّ أَبْعَثُکَ عَلَی مَا بَعَثَنِی عَلَیْہِ رَسُول اللَّہِ () أَنْ لاَ تَدَعَ تِمْثَالاً إِلاَّ طَمَسْتَہُ وَلاَ قَبْرًا مُشْرِفًا إِلاَّ سَوَّیْتَہُ)[ رواہ مسلم : کتاب الجنائز] ” ابو الھیاج اسدی کہتے ہیں مجھے علی بن ابی طالب (رض) نے کہا : کیا میں تجھے اس کام پر نہ بھیجوں جس پر مجھے رسول اللہ (ﷺ) نے بھیجا تھا کہ ہر تصویرکو مٹادے اور جو اونچی قبر دیکھے اسے برابر کردے۔“ مسائل: 1۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) شرک سے انتہائی نفرت کرنے والے تھے۔ 2۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) میلوں ٹھیلوں میں شرکت نہیں کرتے تھے۔ 3۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بڑے بت کے سوا سب کو توڑدیا۔ 4۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے غیرت توحید میں آکر بتوں کو مخاطب کیا حالانکہ ان کا عقیدہ تھا کہ بت نہ سنتے ہیں اور نہ نفع ونقصان کے مالک ہیں۔ 5۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بتوں کو توڑ کر ثابت کردیا کہ یہ اپنے یا کسی کے نفع ونقصان کے مالک نہیں ہیں۔