لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ
جب تک تم اپنی پیاری چیزوں میں سے خرچ نہ کرو ‘ بھلائی کو ہرگز حاصل نہیں کرسکتے اور جو تم خرچ کرتے ہو ‘ وہ اللہ کو معلوم ہے (ف ١)
فہم القرآن : ربط کلام : کفر اللہ تعالیٰ سے دوری اور آخرت میں ذلّت کا باعث ہوگا۔ صدقہ اللہ تعالیٰ کی قربت اور آخرت میں نجات کا ذریعہ ہے۔ ” بِرّ“ ایسی نیکی کو کہتے ہیں جسے اس کے پورے تقاضوں کے ساتھ ادا کیا جائے۔ لہٰذاحکم ہوا ہے کہ اے لوگو! تم اس وقت تک صدقے کے حق اور نیکی کی روح کو نہیں پہنچ سکتے جب تک اللہ کی راہ میں وہ چیز خرچ نہ کرو جس کے ساتھ تم انتہائی محبت کرتے ہو۔ ” بِرّ“ کا معنی جنت بھی کیا گیا ہے۔ (تفسیر کبیر رازی) دوسرے الفاظ میں تم جنت کو نہیں پا سکتے جب تک اپنی محبوب چیز اللہ کی راہ میں قربان نہ کرو۔ یہاں لطیف پیرائے میں یہودیوں کے کھوکھلے دعووں اور ان کے بخل کی نشان دہی کرنے کے ساتھ مسلمانوں کو عزیز ترین چیز اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جونہی یہ حکم نازل ہوا تو صحابہ کرام (رض) نے اپنی اپنی متاع عزیز کو فی سبیل اللہ صدقہ کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے اپنی وفادار اور سلیقہ شعار کنیز کو آزاد کیا، حضرت زید بن حارثہ (رض) نے قیمتی گھوڑا بیت المال میں دینے کا اعلان کیا جسے رسول اکرم (ﷺ) نے اس کے بیٹے اسامہ کو عنایت فرمایا جو الگ گھر والے تھے۔ جس پر جناب زید دل گرفتہ ہوئے کہ ہمارا صدقہ ہمیں ہی واپس لوٹا دیا گیا ہے۔ ان کی تسلی کے لیے آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا صدقہ قبول فرما لیا ہے۔ [ ابن جریر و طبرانی] (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ (ﷺ) فَقَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أَیُّ الصَّدَقَۃِ أَعْظَمُ أَجْرًا قَالَ أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِیْحٌ شَحِیْحٌ تَخْشَی الْفَقْرَ وَتَأْمَلُ الْغِنٰی وَلَاتُمْھِلُ حَتّٰی إِذَابَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ قُلْتَ لِفُلَانٍ کَذَا وَلِفُلَانٍ کَذَا وَقَدْ کَانَ لِفُلَانٍ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب فضل صدقۃ الشحیح الصحیح] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں ایک آدمی نبی اکرم (ﷺ) کے پاس آکر پوچھنے لگا کہ کونسا صدقہ زیادہ اجر والا ہے؟ فرمایا جب تو تندرستی کی حالت میں مال کی خواہش ہوتے ہوئے محتاجی کے خوف اور مالدار بننے کی خواہش کے باوجود خیرات کرے۔ اتنی دیر نہ کر کہ جان حلق تک آ پہنچے اس وقت تو کہے کہ اتنا فلاں کو دو اتنا فلاں کو دو۔ حالانکہ اب تو سارا ہی فلاں فلاں کا ہوچکا۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) یَقُوْلُ کَانَ أَبُوْطَلْحَۃَ أَکْثَرَ أَنْصَارِیٍّ بالْمَدِیْنَۃِ نَخْلًا وَکَانَ أَحَبَّ أَمْوَالِہٖ إِلَیْہِ بَیْرُحَاءُ وَکَانَتْ مُسْتَقْبِلَۃَ الْمَسْجِدِ وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) یَدْخُلُھَا وَیَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِیْھَا طَیِّبٍ فَلَمَّا أُنْزِلَتْ ﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ﴾ قَامَ أَبُوْ طَلْحَۃَ فَقَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ ﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ﴾ وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِیْ إِلَیَّ بَیْرُحَاءُ وَإِنَّھَا صَدَقَۃٌ لِلّٰہِ أَرْجُوْبِرَّھَا وَذُخْرَھَا عِنْدَ اللّٰہِ فَضَعْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ حَیْثُ أَرَاک اللّٰہُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) بَخْ ذٰلِکَ مَالٌ رَابِحٌ ذٰلِک مَالٌ رَابِحٌ وَقَدْ سَمِعْتُ مَاقُلْتَ وَإِنِّیْ أَرٰی أَنْ تَجْعَلَھَا فِی الْأَقْرَبِیْنَ قَالَ أَبُوْ طَلْحَۃَ أَفْعَلُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَسَمَھَا أَبُوْ طَلْحَۃَ فِیْ أَقَارِبِہٖ وَفِیْ بَنِیْ عَمِّہٖ) [ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن، باب لن تنالوا البرحتی تنفقوا مما تحبون] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ مدینہ میں ابو طلحہ (رض) انصار میں سب سے زیادہ کھجوروں والے تھے ان باغات میں بیرحاء نامی باغ ان کا سب سے بہترین مال تھا۔ جو مسجد کے سامنے تھا نبی (ﷺ) اس میں جاتے اور وہاں سے پانی پیا کرتے تھے جب آیت ﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ﴾ نازل ہوئی۔ حضرت ابو طلحہ (رض) رسول کریم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جب تک تم اپنی محبوب ترین چیز خرچ نہ کرو کبھی نیکی تک نہ پہنچ سکو گے۔ یقینًامیرے پاس ” بیرحاء“ کا باغ ہے جو میری پوری جائیداد میں میرے نزدیک قیمتی اور عزیز ہے میں اس کے بدلے اللہ کے ہاں نیکی اور آخرت کے خزانے کا خواہشمند ہوں لہٰذا آپ اسے جہاں چاہیں استعمال کریں۔ آپ (ﷺ) نے اس جذبہ کی تحسین کرتے ہوئے فرمایا : یہ مال بڑا نفع بخش ہے یہ مال بڑا فائدہ مند ہے جو تم نے کہا میں نے سن لیا۔ تم اسے اپنے قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔ چنانچہ حضرت ابو طلحہ (رض) نے باغ اپنے چچا زاد بھائیوں اور عزیزوں میں تقسیم کردیا۔“ یاد رہے! یہ وہی ابو طلحہ (رض) ہیں جنہوں نے مہمان کو کھانا کھلانے کے لیے اپنی بیوی کو کہا تھا کہ جونہی ہم کھانا شروع کریں تو دیا بجھا دیا جائے تاکہ مہمان کو کھانے کی کمی کا احساس نہ ہو۔ آیت کے آخر میں تمام صدقات کی یہ کہہ کر حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ جو کچھ بھی تم اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے۔ اللہ تعالیٰ اسے اور تمہاری نیت کو خوب جانتا ہے۔ مسائل : 1۔ اللہ کی راہ میں محبوب چیز خرچ کرنا چاہیے۔ 2۔ آدمی جو کچھ خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : نیکی کیا ہے ؟ 1۔ نیکی کے کام۔ (البقرۃ:177) 2۔ نیکی میں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔ (المائدۃ:2) 3۔ نیکی کے عوض برائیاں معاف ہوتی ہیں۔ (ھود :114) 4۔ محبوب چیز خرچ کیے بغیر نیکی کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ (آل عمران :92 )