سورة فاطر - آیت 36

وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لَا يُقْضَىٰ عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُم مِّنْ عَذَابِهَا ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي كُلَّ كَفُورٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جو کافر ہیں ان کے لئے جہنم کی آگ ہے ، نہ تو ان کے لئے (موت ہی کا) حکم پہنچے گا کہ مرجائیں اور نہ ان سے دوزخ کا عذاب ہی ہلکا کیا جائے گا ۔ ہر ناشکرگزار کو ہم یوں ہی سزا دیا کرتے ہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت36سے37) ربط کلام : جنتیوں کے مقابلے میں جہنمیوں کی سزا اور ان کی آہ زاریاں۔ جو لوگ کفر وشرک، بدعت و رسومات پر قائم رہے انہیں جہنم کی آگ میں جھونکا جائے گا۔ نہ ان کو موت آئے گی اور نہ ہی ان پر جہنم کا عذاب ہلکا کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ مجرموں کو ٹھیک، ٹھیک سزا دیں گے وہ جہنم میں چیختے چلاتے ہوئے اپنے رب کے حضور آہ و زاریاں کریں گے کہ اے ہمارے رب ! تیرے حضور ہم فریاد پر فریاد کرتے ہیں کہ ہمیں ایک دفعہ جہنم سے نکال دے اور ہمیں دنیا میں جانے کا موقعہ عنایت فرما ہم واپس جا کر بدی کی بجائے نیکی اور برائی کی جگہ اچھائی کریں گے۔ جہنمیوں کی آہ زاری کے جواب میں اس موقعہ پر صرف اتناارشاد ہوگا کہ کیا ہم نے دنیا میں رہنے کے لیے تمہیں ایک عرصہ نہیں دیاتھا ؟ اور تمہارے پاس برے انجام سے ڈرانے والے نبی نہیں بھیجے تھے ؟ لیکن تم نے ان کی نصیحت کو درخور اعتناء نہ سمجھا لہٰذا جہنم کی سزائیں بھگتتے رہو۔ ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ ” حضرت ابو دردا (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ جہنمیوں پر بھوک مسلط کردی جائے گی۔ وہ بھوک اس عذاب کے برابر ہوگی جس میں وہ مبتلاہوں گے اور کھانا طلب کریں گے تو انہیں کھانے میں سوکھی گھاس پیش کی جائے گی جس سے نہ تو وہ موٹے ہو پائیں گے اور نہ ان کی بھوک دور ہوگی وہ کھانا طلب کریں گے تو انہیں ایسا کھانا دیا جائے گا جو ان کے حلق میں اٹک جائے گا۔ وہ کہیں گے کہ دنیا میں کھانا حلق میں اٹک جاتا تھا تو ہم پانی کے ساتھ اسے نیچے اتارتے تھے۔ پانی طلب کریں گے تو انہیں گرم پانی لوہے کے پیالوں میں دیا جائے گا جب اسے اپنے چہروں کے قریب کریں گے تو ان کے چہرے جھلس جائیں گے۔ جب اسے اپنے پیٹ میں داخل کریں گے تو ان کے پیٹ کٹ جائیں گے۔ وہ کہیں گے جہنم کے داروغے کو بلاؤ انہیں جواب دیا جائے گا۔ کیا تمہارے پاس معجزات لے کر رسول نہیں آئے تھے ؟ وہ جواب دیں گے ہاں! فرشتے کہیں گے تم چیختے چلاتے رہو! تمہاری فریاد رائیگاں جائے گی۔ وہ کہیں گے مالک کو پکارو! تو جہنمی جہنم کے کنٹرولر مالک فرشتے کو پکاریں گے کہ اللہ تعالیٰ سے عرض کرو کہ ہمارے مرنے کا فیصلہ فرما دے جواب دیا جائے گا تم ہمیشہ اسی میں رہو گے۔ اعمش نے کہا ان کو مالک کی طرف سے ایک ہزار سال کے بعد جواب دیا جائے گا۔ جہنمی کہیں گے کہ اپنے پروردگار کو پکارو! تمہارے رب سے بہتر کوئی سننے والا نہیں۔ وہ فریاد کریں گے اے ہمارے پروردگار! ہم پر ہماری بدبختی غالب آگئی اور ہم گمراہ ہوگئے اے ہمارے پروردگار! ہمیں اس جہنم سے نکال دے اگر ہم دوبارہ ایسے اعمال کریں تو ہم ظالم ہوں گے۔ انہیں جواب دیا جائے گا۔ اسی دوزخ میں رہو اور کسی قسم کی کلام نہ کرو! اس وقت وہ ہر بھلائی سے ناامید ہوجائیں گے، وہ آہ وزاریاں کریں گے اور کھانے پے حسرت کا اظہار کرتے ہوئے واویلا کریں گے۔“ [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ طَعَامِ أَہْلِ النَّارِ(ضعیف)] مسائل: 1۔ جہنمیوں کو جہنم میں موت نہیں آئے گی۔ 2۔ جہنم کا عذاب کبھی ہلکا نہیں ہوگا۔ 3۔ جہنمی جہنم میں چیخ چیخ کر آہ و زاریاں کریں گے مگر ان کی فریادیں مسترد کردی جائیں گی۔ 4۔ جہنم میں جہنمیوں کی کوئی مدد نہیں کرسکے گا۔