سورة فاطر - آیت 31

وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِعِبَادِهِ لَخَبِيرٌ بَصِيرٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جو کتاب ہم نے تیری طرف نازل کی ہے ۔ وہی حق ہے جو اس سے پہلے ہے اس کی تصدیق (ف 1) کرتی ہے ۔ بےشک اللہ اپنے بندوں سے خبردار ہے (اور) انہیں دیکھ رہا ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت31سے32) ربط کلام : یہ اللہ تعالیٰ کی قدر افزائی کا نتیجہ ہے کہ وہ اپنے بندوں میں کچھ بندوں کو اپنی کتاب کا وارث بنا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد (ﷺ) پر قرآن مجید نازل فرمایا جس کے ” من جانب اللہ“ ہونے میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔ قرآن واقعتا حضرت محمد (ﷺ) پر نازل ہوا یہ حقیقی اور ٹھوس دلائل پر مبنی ہے۔ اس کے ارشادات سچے ہیں اس کی تعلیمات پہلی آسمانی کتابوں کی تائید کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ہر بات سے باخبر اور ان کے ہر کام کو دیکھنے والاہے۔ وہی لوگوں میں سے اپنے بندوں کو اپنی کتاب کا وارث بنانے والا ہے جن میں سے کچھ اپنے آپ پرزیادتی کرنے والے ہیں۔ کچھ ان میں میانہ رو ہیں اور کچھ ان میں سے اپنے رب کی توفیق سے نیکیوں میں دوسروں سے آگے نکل جانے والے ہیں۔ جن لوگوں کو نیکی میں سبقت کرنے کی توفیق مل جائے ان پر اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی فضل ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن مجید نبی آخر الزمان (ﷺ) پر نازل کیا گیا ہے۔ اسے لوگوں تک پہنچانا آپ (ﷺ) کی ذمہ داری تھی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ کی وفات کے بعد اس پر عمل کرنا اور لوگوں تک پہنچانا امّتِ محمدیہ کی ذمہ داری ہے۔ قرآن مجید نے مسلمانوں کو صرف نیکی کرنے کا حکم ہی نہیں دیا بلکہ نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا حکم بھی دیا ہے۔ جس معاشرے اور قوم میں نیکی اور اچھائی کے کاموں میں مسابقت کا جذبہ مفقود ہوجائے وہ معاشرہ اور قوم بالآخر مردہ ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں کو مردگی سے بچانے اور اقوام عالم کی قیادت پر فائز کرنے کے لیے کئی بار حکم دیا کہ اچھائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو یہی ترقی کا راز اور اجتماعی زندگی کا جوہر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تین طبقات میں شمار فرمایا ہے۔ 1 ۔مسلمان ہیں مگر ان سے کبیرہ گناہ بھی سرزد ہوجاتے ہیں نبی (ﷺ) کے کتاب مبین کے وارث ہونے کے باوجود انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ہیں۔ یہاں ظلم سے مراد چھوٹے بڑے گناہ ہیں۔ جنہیں اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے 2 ۔مسلمانوں میں دوسرا طبقہ وہ ہے جوفرائض پورے کرتا ہے اور کبیرہ گناہوں سے بچتا ہے لیکن نفلی کاموں میں بڑھ چڑھ کر زیادہ حصہ نہیں لیتا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی اپنے بندوں میں شمار فرمایا ہے۔ 3 ۔امت محمدیہ کا آخری اور بہترین طبقہ وہ ہے جوفرائض کو بطریق احسن انجام دینے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے نفلی کاموں میں بھی دوسرے مسلمانوں سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے لوگ نیکی کے معاملہ میں امت محمدیہ کا سرخیل اور ہر اوّل دستہ ہیں۔ جن میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پوری امت کے امام اور پیش رو ہیں اور ان کے بعد ان کی اولادیں پوری امت سے افضل ہیں۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ (رض) عَنِ النَّبِی () قَالَ خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِی، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ، ثُمَّ یَجِیءُ مِنْ بَعْدِہِمْ قَوْمٌ تَسْبِقُ شَہَادَتُہُمْ أَیْمَانَہُمْ وَأَیْمَانُہُمْ شَہَادَتَہُمْ)[ رواہ البخاری : باب مَا یُحْذَرُ مِنْ زَہْرَۃِ الدُّنْیَا وَالتَّنَافُسِ فیہَا] ” حضرت عبداللہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا، بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں، پھر ان کے بعد والے، پھر جو ان کے بعد والے۔ اس کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جن کی گواہی ان کی قسم پر اور قسم ان کی شہادت پر سبقت لے جائے گی۔“ (یعنی انہیں قسم اور گواہی کی کوئی پرواہ نہیں ہوگی۔) کچھ مفسرین نے تین طبقات سے مراد اہل کتاب لیے ہیں ان میں سے ایک طبقہ کھل کردین کی مخالفت کرکے اپنے آپ پر ظلم ڈھارہا ہے۔ دوسرا طبقہ مسلمانوں کی مخالفت تو کرتا ہے لیکن اخلاقی حدود سے تجاوز نہیں کرتا۔ تیسرا طبقہ وہ ہے جو تمام قسم کے تحفظات اور مخالفتوں کی پروا کیے بغیر دین اسلام کو قبول کرتا ہے۔ (عَنْ مُّعَاوِیۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () مَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ بِہٖ خَیْرًا یُّفَقِّھْہُ فِی الدِّینِ وَاِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَّاللّٰہُ یُعْطِیْ) [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب من یرد اللہ بہ خیرا یفقہ فی الدین] ” حضرت معاویہ (رض) رسول اکرم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ خیر خواہی کرنا چاہتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔ میں تقسیم کرنے والاہوں اور اللہ مجھے عنا یت فرمانے والا ہے۔“ ﴿یُؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَشَاءُ وَمَنْ یُؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْرًا کَثِیرًا وَمَا یَذَّکَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ﴾ [ البقرۃ:269] ” وہ جسے چاہے حکمت عطا کرتا ہے اور جسے حکمت عطا کی گئی اسے خیر کثیر عطا کردی گئی نصیحت تو صرف عقل مندہی قبول کرتے ہیں۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں میں اپنے بندوں کو اپنی کتاب کا وارث بنایا ہے۔ 2۔ مسلمانوں میں سب سے بہترین طبقہ وہ ہے جو نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت کرنیوالاہے۔ 3۔ نیکی میں سبقت کرنیوالے پر اللہ کا بڑا ہی فضل ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: نیکیوں میں سبقت کرنے کا حکم اور سبقت کرنے والوں کی فضیلت : 1۔ اللہ کی مغفرت اور جنت کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے سبقت کرو۔ (الحدید :21) 2۔ نیکی کے حصول میں جلدی کرو۔ (البقرۃ:148) 3۔ نیکیوں میں سبقت کرنے والے سب سے اعلیٰ ہوں گے۔ (فا طر :32) 4۔ سبقت کرنے والے اللہ کے مقرب ہوں گے۔ (الواقعۃ: 10، 11) 5۔ اللہ کی جنت اور بخشش میں سبقت کرو۔ ( آل عمران :133) 6۔نیکی کرنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے ۔(آل عمران:148) 7۔اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہوتی ہے۔(الاعراف:56) 8۔تقویٰ اختیار کرنے والوں اور نیکی کرنے والوں کو اللہ پسند کرتا ہے ۔(المائدۃ:93)