سورة فاطر - آیت 22

وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَن يَشَاءُ ۖ وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور زندے اور مردے برابر نہیں ۔ خدا جسے چاہے سناتا ہے ۔ اور تو انہیں جو قبروں میں ہیں سنانے والا نہیں (ف 1)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت22سے24) ربط کلام : شرک اور التوحید کا ایک اور موازنہ۔ جس طرح اندھا اور بینا، اندھیرے اور روشنی، دھوپ اور سایہ برابر نہیں ہوسکتے اسی طرح زندہ اور مردہ برابر نہیں ہوتے۔ توحید اور شرک کے درمیان موازنہ فرما کریہ ثابت کیا گیا ہے کہ توحید کا عقیدہ رکھنے والے زندہ ہیں اور شرک میں مبتلا ہونے والے مردہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اسے سننے کی توفیق بخشتا ہے۔ اے حبیب (ﷺ) ! آپ قبروں میں دفن لوگوں کو نہیں سنا سکتے۔ آپ تو لوگوں کو ان کے برے اعمال کے نتیجہ سے ڈرا نے والے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حق کے ساتھ اس لیے بھیجا ہے کہ آپ حق قبول کرنے والوں کو خوشخبری سنائیں اور انکار کرنے والوں کو ان کے انجام سے ڈرائیں۔ اللہ تعالیٰ نے کوئی امت ایسی نہیں چھوڑی جن میں ڈرانے والا مبعوث نہ کیا ہو۔ یہ بات ” فہم القرآن:“ کے کئی مقامات پر بیان ہوچکی ہے کہ پیغمبر اسلام (ﷺ) کی دعوت دو نتائج پر مبنی ہے۔ تسلیم کرنے والوں کے لیے آپ (ﷺ) بشیر تھے اور انکار کرنے والوں کے لیے آپ نذیر بنا کر بھیجے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ سے یہ دستور رہا ہے کہ اس نے ہر زمانے کے لوگوں میں اپنا رسول مبعوث فرمایا جو لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈراتا اور ایمان والوں کو ان کے روشن مستقبل کی خوشخبری دیا کرتا تھا۔ ہر زمانے اور ہر امت میں رسول بھیجنے کا یہ مفہوم ہے کہ جہاں اور جب تک نبی کی شریعت اصل حالت میں موجود رہتی ہے۔ اس وقت تک وہاں نبی مبعوث نہیں کیا جاتا۔ جب پہلے نبی کی شریعت اپنی حالت میں نہیں رہتی تو اللہ تعالیٰ اس نبی کے دور اور علاقے میں ایک اور نبی مبعوث فرماتارہا۔ تاآنکہ خاتم المرسلین مبعوث کردئیے گئے۔ اب قیامت تک کوئی نبی مبعوث نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ دین مکمل ہوا جو اصل حالت میں ہمیشہ رہے گا اور آپ (ﷺ) کی امت کے علماء یہ فرض ادا کرتے رہیں گے۔ آیت 22میں یہ بات بھی واضح کردی گئی ہے کہ نبی مکرم (ﷺ) بھی مردوں کو نہیں سنا سکتے تھے۔ ہاں! اللہ تعالیٰ جسے چاہے سنوا سکتا ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں بدر کے مردوں کے بارے میں آپ (ﷺ) کا ارشاد ہے۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کُنَّا مَعَ عُمَرَ بَیْنَ مَکَّۃَ وَالْمَدِینَۃِ أَخَذَ یُحَدِّثُنَا عَنْ أَہْلِ بَدْرٍ فَقَالَ إِنَّ رَسُول اللّٰہِ () لَیُرِینَا مَصَارِعَہُمْ بالْأَمْسِ قَالَ ہٰذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ إِنْ شَاء اللّٰہُ غَدًا قَالَ عُمَرُ وَالَّذِی بَعَثَہُ بالْحَقِّ مَا أَخْطَئُوا تیکَ فَجُعِلُوا فِی بِئْرٍ فَأَتَاہُمْ النَّبِیُّ () فَنَادٰی یَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ یَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ ہَلْ وَجَدْتُّمْ مَا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا فَإِنِّی وَجَدْتُّ مَا وَعَدَنِی اللّٰہُ حَقًّا فَقَالَ عُمَرُ تُکَلِّمُ أَجْسَادًا لَا أَرْوَاح فیہَا فَقَالَ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْہُمْ) [ رواہ مسلم : کتاب الجنائز، باب أرواح المؤمنین] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں ہم حضرت عمر (رض) کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان سفر میں تھے وہ ہمیں اہل بدر کے متعلق بتانے لگے۔ رسول معظم (ﷺ) نے وہ جگہیں ہمیں دکھائیں جہاں اگلے دن کافروں نے قتل ہونا تھا آپ (ﷺ) نے فرمایا اللہ نے چاہا تو فلاں فلاں کے قتل ہونے کی یہ یہ جگہ ہے۔ عمر (رض) فرماتے ہیں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ کافر مقررہ جگہوں سے ذرا برابر بھی ادھر ادھر نہیں قتل ہوئے انہیں کنویں میں پھینک دیا گیا۔ کنویں کے پاس نبی معظم (ﷺ) آئے اور انہیں آواز دیتے ہوئے فرمایا اے فلاں بن فلاں، اے فلاں بن فلاں کیا تم سے تمہارے رب نے جو وعدہ کیا تھا تم نے اسے سچ پایا ہے۔ بلاشبہ میرے رب نے میرے ساتھ جو وعدہ کیا تھا میں نے اسے سچ پا یا ہے۔ حضرت عمر (رض) کہتے ہیں آپ (ﷺ) نے لاشوں کو مخاطب فرمایا حالانکہ یہ مر چکے ہیں نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا جو ان سے کہہ رہا ہوں یہ تم سے زیادہ سن رہے ہیں۔“ تفسیر بالقرآن: مردے نہیں سنتے : 1۔ اللہ جسے چاہے سنا سکتا ہے جو قبروں میں ہیں آپ (ﷺ) ان کو نہیں سنا سکتے۔ (فاطر : 22۔ النمل :80) 2۔ آپ (ﷺ) بہروں کو نہیں سنا سکتے۔ (یونس :42) 3۔ مدفون نہیں سنتے وہ قیامت کے دن اپنے پکارنے والوں کا انکار کریں گے۔ (فاطر :14)