سورة فاطر - آیت 0

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(شروع) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ فاطر کا تعارف : سورۃ فاطر مکہ کی سرزمین پر نازل ہوئی۔ اس کا نام اس کی پہلی آیت کا تیسرا لفظ ہے۔ یہ سورت پانچ رکوع اور پینتالیس آیات پر مشتمل ہے۔ ربط سورۃ: سورۃ سبا کے اختتام میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ آخرت کے بارے میں شک کرتے ہیں۔ وقت آئے گا کہ وہ آخرت پر ایمان لائیں گے لیکن اس وقت انہیں ایمان لانے کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ وہ بھاگنے کی کوشش کریں گے لیکن فوراً گرفتار کرلیے جائیں گے۔ سورۃ فاطر کی ابتداء ” اللہ“ کی حمد سے ہوئی ہے اور ملائکہ کی قوت کا ذکر کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ کچھ ملائکہ کے دو دو پر ہیں کچھ کے تین تین اور کچھ ملائکہ چار پروں والے ہیں۔ اور جبریل امین (علیہ السلام) کے بارے میں اللہ کے نبی نے فرمایا ہے کہ ” لَہُ سِتُّ مائَۃِ جَنَاحٍ قَد سَدَّالْاُفُقَ“ (رواہ البخاری :باب اذا قال احدکم آمین والملائکۃ فی السماء) ان کے چھ سو پر ہیں۔ اس کا ایک پر حد نگاہ سے بھی بڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہتا ہے اپنی مخلوق کو پیدا کرتا ہے اور وہ ہر کام کرنے پر پوری قوت اور اختیار رکھتا ہے۔ ملائکہ کی تخلیق کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیارات کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنی رحمت سے سرفراز کرے اور جسے چاہے اپنی رحمت سے محروم رکھے۔ نہ اس کی رحمت کو کوئی روک سکتا ہے اور نہ اسے جبراً کوئی حاصل کرسکتا ہے وہ ہر اعتبار سے غالب اور حکمت والا ہے۔ یہ اس کی رحمت کا ہی انداز ہے کہ وہ جس کا چاہتا ہے رزق فراخ کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے کم کرتا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں لیکن اس کے باوجود لوگ دوسروں کو معبود بناتے اور بہک جاتے ہیں۔ قیامت قائم کرنے کے بارے میں اس کا وعدہ برحق ہے۔ اس دن کفار کو شدید عذاب ہوگا اور نیک لوگوں کو اجر عظیم دیا جائے گا۔ سورۃ کے دوسرے رکوع میں انسان کی تخلیق کے مراحل کا ذکر فرما کر واضح کیا ہے کہ انسان کن مراحل سے گزر کر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد بتلایا کہ سمندر میں میٹھے اور کڑوے پانی کا اکٹھا چلنا، سمندر سے مچھلیوں اور موتیوں کا نکلنا، رات اور دن کا ایک دوسرے کے کچھ حصہ پر غالب آنا اور چاند اور سورج کا اپنی اپنی ڈیوٹی پر وقت مقرر کے مطابق چلتے رہنا، یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ عظیم نشانیوں کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا کہ یہی تمہارا ” اللہ“ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور سب کچھ اسی کا ہے جن کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی میں پڑے ہوئے پردے کے برابر بھی اختیارات نہیں رکھتے۔ یہاں تک کہ وہ تمہاری فریاد بھی نہیں سن سکتے جن کو تم اپنے رب کا شریک بناتے ہو وہ قیامت کے دن اپنے ماننے والوں کا انکار کریں گے۔ لہٰذا لوگو! اِدھر ادھر جانے کی بجائے صرف اپنے رب سے مانگا کرو۔ وہ غنی اور صاحب تعریف ہے اور تم سب اس کے در کے فقیر ہو۔ اگر وہ چاہے تو سب کو ختم کر کے نئی مخلوق پیدا کر دے وہ ایسا کرنے پر پوری طرح قدرت رکھتا ہے۔ اور نہ ہی قیامت کے دن بھی کوئی اس کے کام میں دخل انداز نہیں ہو سکے گا یہاں تک کہ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اس حقیقت سے آگاہ کرنے کے بعد توحید اور کفر کا تقابل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جس طرح اندھا اور دیکھنے والا، اندھیرا اور روشنی، دھوپ اور سایہ، زندہ اور مردے برابر نہیں ہوتے یہی توحید اور شرک کا آپس میں فرق ہے۔ اتنا فرق ہونے کے باوجود لوگ ” اللہ“ کی توحید کو ماننے اور آپ (ﷺ) کی رسالت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تو آپ (ﷺ) کو دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ سے پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) کو بھی جھٹلایا گیا تھا یہ لوگ حقیقت میں مردہ ہوچکے ہیں آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔ اس کے بعد بارش، پہاڑوں اور چوپاؤں کا ذکر فرماکر اشارۃً سمجھایا ہے کہ جس طرح بارش سے مختلف قسم کی نباتات نکلتی ہیں اور پہاڑوں کی مختلف اقسام اور رنگ ہوتے ہیں، چوپاؤں اور انسانوں کے مختلف رنگ ہوتے ہیں اسی طرح لوگوں کے مزاج میں فرق ہوتا ہے کچھ لوگ نرم اور سلیم الفطرت ہوتے ہیں جو حق بات کو جلد قبول کرلیتے ہیں اور کچھ ان میں سے سخت طبیعت اور بدمزاج ہوتے ہیں جو حق بات کو قبول کرنے کی بجائے اس کے ساتھ جھگڑا کرتے ہیں البتہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے حقیقی علم سے نوازا ہے وہ اپنے رب سے ڈرنے اور اس کی طرف رجوع کرنے والے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی خطاؤں کو اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والا ہے کیونکہ وہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ سورت کے آخری دو رکوع میں دیگر مسائل: بتلانے کے بعد مشرکوں کو چیلنج دیا ہے اگر تمہارے بنائے ہوئے شریکوں کے پاس ان کی پیدا کردہ کوئی چیز ہو یا کوئی اور دلیل ہو تو وہ پیش کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑا بردبار اور بخشنہار ہے۔ اگر وہ لوگوں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے پکڑنے پر آئے تو زمین پر کوئی چیز باقی نہ رہے لیکن اس نے لوگوں کو ایک وقت تک مہلت دے رکھی ہے۔ یقیناً وہ اپنے بندوں کی ہر وقت نگرانی کرنے والا ہے۔