تُرْجِي مَن تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاءُ ۖ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَا آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي قُلُوبِكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَلِيمًا
ان عورتوں میں سے جسے تو چاہے علیحدہ رکھ دے اور جسے چاہے اپنی طرف جگہ دے اور جن کو تونے علیحدہ کردیا تھا اگر ان میں سے تو کسی کی خواہش کرے تو تجھ پر کچھ گناہ نہیں ۔ اس میں زیادہ قریب ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور غم نہ کریں اور وہ سب اس پر جو تونے انہیں دیا راضی رہیں اور اللہ چاہتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہے اور اللہ جاننے والا بردبار ہے
فہم القرآن: (آیت51سے52) ربط کلام : ازواج مطہرات کے بارے میں نبی اکرم (ﷺ) کو مزید اختیارات۔ نبوت کے فرائض کی انجام دہی کے لیے نبی معظم (ﷺ) کو حق مہر اور بعض ازواجی پابندیوں سے آزاد کردیا گیا تاکہ آپ ایک حد تک گھریلو ما حول سے آزاد ہو کر دعوت کا کام جاری رکھ سکیں۔ آپ کو یہ بھی اختیار دیا گیا ہے کہ جس بیوی کو چاہیں اپنے سے الگ رکھیں جس کو چاہیں اپنے ساتھ رکھیں اور جس کو چاہیں الگ رکھنے کے بعد اپنے پاس بلالیں۔ گویا کہ جس بیوی سے جیسا برتاؤ کرنا چاہیں کریں آپ پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ بفرض محال اگر کسی بیوی کے ساتھ کوئی کمی، بیشی ہوجاتی ہے تو وہ اسے محسوس نہ کرے۔ اس طرح ہر بیوی اپنے مقام پر مطمئن رہے گی۔ کہ یہ نبی کریم (ﷺ) کا مجھ پر احسان ہے کہ آپ نے مجھے اپنے جرم میں رکھا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کی حالت سے واقف ہے اور سب کو جاننے کے باوجودحوصلے والا ہے۔ اس رعایت کا یہ بھی مقصد تھا کہ آپ (ﷺ) اپنی بیویوں کی باہمی رقابت سے بے نیاز ہوجائیں۔ اس رعایت کے باوجود نبی کریم (ﷺ) نے ازراہ شفقت اپنی ازواج کے لیے باری مقرر کی اور اسکی پابندی فرمائی۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ (ﷺ) آخری بیماری میں مبتلا ہوئے تو آپ نے اپنی بیویوں سے اجازت طلب فرمائی کہ مجھے عائشہ (رض) کے گھر میں رہنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ تمام ازواج مطہرات نے خوشی سے اجازت دی۔ کیونکہ وہ آپ (ﷺ) کی خوشی کو اپنی خوشی سے مقدم جانتی تھیں اور یہ بات اچھی طرح سمجھتی تھیں کہ آپ (ﷺ) کا ہمیں اپنے حرم میں شامل فرمانا ہم پر ایسا احسان ہے جس کا بدلہ چکاناہم میں سے کسی کے بس کا روگ نہیں۔ یہی وجہ ہے ایلا کے موقع پر جب آپ (ﷺ) نے ازواج مطہرات کو دو باتوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کا موقعہ دیا تو تمام ازواج نے بیک زبان عرض کی کہ ہم دنیا کے مال و متاع کے مقابلے میں آپ (ﷺ) کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ (عَنْ أَنَس (رض) قَالَ الَی رَسُول اللَّہ (ﷺ) مِنْ نِسَائِہِ، وَکَانَتِ انْفَکَّتْ رِجْلُہُ، فَأَقَامَ فِی مَشْرُبَۃٍ تِسْعًا وَعِشْرِینَ لَیْلَۃً، ثُمَّ نَزَلَ فَقَالُوا یَا رَسُول اللَّہِ آلَیْتَ شَہْرًافَقَالَ إِنَّ الشَّہْرَ یَکُونُ تِسْعًا وَعِشْرِینَ ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ النَّبِی (ﷺ) إِذَا رَأَیْتُمُ الْہِلاَلَ فَصُومُوا وَإِذَا رَأَیْتُمُوہُ فَأَفْطِرُوا] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے اپنی بیویوں سے ایک ماہ کے لیے ایلاء کیا آپ کے پاؤں کو موچ آئی اور آپ نے بالاخانے میں انتیس راتیں بسرکیں پھر آپ نیچے تشریف لائے۔ صحابہ نے عرض کی کہ اے اللہ رسول (ﷺ) ! آپ نے تو ایک مہینہ کے لیے ایلاء کیا تھا۔ آپ نے جواب دیا کہ مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔“ نبی معظم (ﷺ) نے اپنی بیویوں کو اپنے ساتھ رہنے یا الگ ہونے کا کلّی اختیار دیا تو ازواج مطہر ات نے آپ (ﷺ) کی ذات اقدس کو ترجیح دی۔ کسی ایک بیوی نے بھی آپ (ﷺ) سے الگ ہونا گوارہ نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس محبت اور تعلق کو قبول نبی (ﷺ) کے حق میں قبول فرمایا اور نبی کریم (ﷺ) کو پابند کردیا کہ اے نبی (ﷺ) آپ نے اپنی بیویوں کے ایثار، اخلاص اور انپے ساتھ پرخلوص تعلق کو جانچ لیا ہے لہٰذا آپ کو اب اختیار نہیں کہ آپ کسی ایک بیوی کو طلاق دے کر اس کی جگہ کوئی اور بیوی لے آئیں بے شک وہ کتنی ہی حسین کیوں نہ ہو۔ البتہ لونڈیاں رکھنے کی آپ کو اجازت ہے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کی نگرانی کرنے والا ہے۔ مسائل: 1۔ نبی (ﷺ) کو اپنے بیویوں کے بارے میں کلّی اختیار حاصل تھا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ چیز پر نگران ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ ہر بات کو جاننے والا اور ہر چیز پر نگران ہے : 1۔ جو بھی تم عمل کرتے ہو وہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ (یونس :61) 2۔ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کو جاننے والا ہے۔ (یٰس :79) 3۔ جو لوگ جہالت کی وجہ سے برائی کرتے ہیں، پھر جلدی سے توبہ کرلیتے ہیں اللہ ان کی توبہ قبول کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کو جاننے اور حکمت والا ہے۔ (النساء :17) 4۔ اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرو یقیناً اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ (النساء :32) 5۔ جو کچھ تم اللہ کے دیے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کو جاننے والا ہے۔ (النساء :39) 6۔ قیامت کا، بارش کے نازل ہونے کا، اور جو کچھ رحموں میں ہے اور انسان کل کیا کمائے گا اور اسے کہاں موت آئے گی اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ (لقمان :34) 7۔ اللہ تعالیٰ بحروبر اور ہر گرنے والے پتے کو جانتا ہے۔ (الانعام :59) 8۔ فرشتوں نے کہا تو پاک ہے ہمیں تو اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھلایا ہے اور تو جاننے والا، حکمت والا ہے۔ (البقرۃ:32) 9۔قیامت کے دن حضرت عیسیٰ عرض کرینگے جب تو نے مجھے فوت کر لیا تو تو ہی ان پر نگران تھا اور تو ہر ایک پر گواہ ہے ۔(المائدۃ :117) 10۔بے شک میرا پروردگار ہر چیز پر نگہبان ہے ۔(ھود:57) 11۔اللہ تم پر نگہبان ہے۔(الشوریٰ:6) 12۔اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے اسی کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔(آل عمران:102) 13۔اللہ پر توکل کرو،اللہ بہترین کارساز ہے۔(الاحزاب:3) 14۔تیرا رب ہر چیز کی حفاظت کرنے والا ہے۔(سبا:21)