يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا ۖ فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا
مومنو ! جب تم ایماندار عورتوں سے نکاح کرو پھر تم انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دیدو تو تم کو ان پر عدت بیٹھانے کا کچھ حق نہیں کہ ان سے شمار عدت پوری کراؤ۔ سو تم انہیں کچھ فائدہ دو اور اچھی (ف 1) طرح سے رخصت کردو
فہم القرآن: ربط کلام : اس سے پہلے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اس لیے مبعوث فرمایا ہے کہ آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلائیں۔ اب لوگوں پر لازم ہے کہ وہ کفار اور مشرکین کی بات ماننے کی بجائے اللہ اور اس کے رسول کی بات مانیں اس حکم کا تقاضا یہ ہے کہ اگر تم اپنی بیویوں کو چھوئے بغیر طلاق دے دو تو پھر بھی انہیں رخصت کرتے ہوئے ان کے ساتھ بہترین سلوک کرو۔ گویا کہ گھریلو معاملات میں بھی نبی کریم (ﷺ) کا حکم ماننا چاہیے۔ ارشادہوا کہ اے صاحب ایمان لوگو! تم مومن عورتوں سے نکاح کرو۔ اگر انہیں چھونے سے پہلے طلاق کی نوبت پیش آجائے تو تمہاری بیویوں پر عدّت گذارنے کی کوئی پابندی نہیں۔ طلاق کے بعد جب چاہیں آگے نکاح کرسکتی ہیں۔ البتہ خاوندوں پر لازم ہے کہ جب انہیں رخصت کریں توبہتر سے بہتر طریقے سے رخصت کیا کریں۔ بہتر طریقے سے رخصت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ رخصت کرتے وقت اپنی استعداد کے مطابق کچھ نہ کچھ انہیں ضرور دینا چاہیے تاکہ ان کی دلجوئی ہونے کے ساتھ جس اعتماد اور تعلق کی بناء پر یہ رشتہ قائم ہوا تھا اسے کم سے کم نقصان پہنچے۔ یہاں ” مَسَّ“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد بیوی سے خلوت کرنا ہے۔ خاوند اپنی منکوحہ سے جماع کرلے تو طلاق دینے کی صورت میں پورے کا پورا حق مہرادا کرنا ہوگا اور اگر مباشرت یعنی جماع نہیں کیا تو آدھا حق مہر ادا کرنا ہوگا بشرطیکہ حق مہر مقرر ہوچکا ہو۔ یعنی واضح ہونا چاہیے کہ کتنا ادا کرنا ہے۔ جماع سے پہلے طلاق دی جائے توحق مہر نہ مقرر ہونے کی صورت میں کچھ نہ کچھ دے کر بیوی کو رخصت کرنا چاہیے۔ اچھے طریقے سے رخصت کرنے کا یہ بھی معنٰی ہے کہ بیوی کی عیب جوئی نہیں ہونی چاہیے۔ اگر مباشرت سے پہلے خاوند فوت ہوجائے تو عورت پر کوئی عدت نہ ہوگی۔ (عَنْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِیَّ یَقُولُ قَالَ رَسُول اللَّہ (ﷺ) إِنَّ مِنْ أَشَرِّ النَّاسِ عِنْدَ اللَّہِ مَنْزِلَۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الرَّجُلَ یُفْضِی إِلَی امْرَأَتِہِ وَتُفْضِی إِلَیْہِ ثُمَّ یَنْشُرُ سِرَّہَا )[ رواہ مسلم : باب تَحْرِیمِ إِفْشَاءِ سِرِّ الْمَرْأَۃِ] ” عبدالرحمن بن سعد (رض) سے روایت وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری (رض) کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا قیامت کے دن اللہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے بد ترین وہ شخص ہوگا جو اپنی بیوی کی مخصوص باتیں لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے۔“ مسائل: 1۔ نکاح کے لیے مسلمان عورت کو ترجیح دینا چاہیے۔ 2۔ جماع سے پہلے طلاق کی صورت میں عورت کے لیے عدّت نہیں۔ ایسی صورت میں رجوع نہیں ہوسکتا البتہ عقد ثانی ہوسکتا ہے۔ 3۔ حق مہر مقرر نہ ہونے کی صورت میں بیوی کو رخصت کرتے وقت کچھ نہ کچھ دینا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ معاف فرمانے اور رحم کرنے والا ہے : 1۔ اے نبی! میرے بندوں کو بتاؤ کہ میں بخشنے اور رحم کرنے والا ہوں اور میرا عذاب بھی دردناک ہے۔ (الحجر : 49تا50) 2۔ ” اللہ“ توبہ کرنے والوں کو اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے بے شک اللہ معاف کرتا اور رحم فرماتا ہے۔ (التوبۃ:99) 3۔ ” اللہ“ توبہ کرنے والوں کو معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہے۔ (التوبۃ:27) 4۔ جو سچے دل سے تائب ہوجائے ایمان کے ساتھ اعمال صالح کرتا رہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دے گا کیونکہ اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ (الفرقان :70) 5۔ گناہ گار کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے۔ (الزمر :53) 6۔ جو توبہ کرے اور اصلاح کرے تیرا رب بڑا غفور الرّحیم ہے۔ (النحل :119) 7۔ ” اللہ“ جلد پکڑنے والا اور غفور الرّحیم ہے۔ (الانعام :165) 8۔ کیا تم پسند کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کر دے کیونکہ وہ غفور الرّحیم ہے۔ (النور :22)