مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں ہے لیکن اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ختم کرنے والا تمام (ف 1) نبیوں کا اور ہے ۔ اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے
فہم القرآن: ربط کلام : متبنّٰی کے متعلقہ مسائل: بیان کرنے اور نبی (ﷺ) کے فرض منصبی کا ذکر کرنے کے بعد اب مردوں سے نبی (ﷺ) کا تعلق اور آپ کی رفعت شان اور مقام کا بیان ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم (ﷺ) کی ازواج مطہرات مومنوں کی مائیں تھیں۔ ان میں سے حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے بطن سے آپ (ﷺ) کی چاربیٹیاں ہوئیں جن کے اسمائے گرامی زینب، رقیہ، امّ کلثوم، فاطمہ (رح) ہیں اور حضرت خدیجہ (رض) سے آپ (ﷺ) کے تین بیٹے ہوئے جن کے اسمائے گرامی قاسم، ابراہیم، طیب ہیں۔ آپ (ﷺ) کے تینوں بیٹے اس آیت کریمہ کے نازل ہونے سے پہلے فوت ہوچکے تھے ان کے بعدآپ کے ہاں کوئی بیٹا پیدا نہیں ہوا۔ اس لیے ارشاد ہوا کہ محمد (ﷺ) مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں آپ ” اللہ“ کے رسول اور خاتم المرسلین ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ ہر بات اور کام کو اچھی طرح جانتا ہے۔1 ۔اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ اس نے آپ (ﷺ) کے بیٹوں کو کیوں حیات نہیں رکھا۔ 2 ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت محمد (ﷺ) خاتم المرسلین ہیں جو بہت بڑا مقام اور مرتبہ ہے مگر تم نبی (ﷺ) کی شوکت و عظمت کو پوری طرح نہیں جانتے۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ اس کے نبی کا کیا مقام ہے۔ 3 ۔جب حضرت محمد (ﷺ) تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں تو زید کی بیوی آپ کی بہو کیسے بن گئی۔ 4 ۔خاتم المرسلین ہونے کی حیثیت سے آپ کا فرض ہے کہ آپ ہر چیز کی حلّت اور حرمت واضح کریں۔ آپ (ﷺ) سے پہلے سلسلہ نبوت اس لیے جاری رکھا گیا کہ درج ذیل ضرورتوں میں سے کوئی ایک ضرورت باقی رہتی تھی۔ آپ کی تشریف آوری کے بعد اب کسی بات اور نبی کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اب نبی کی ضرورت کیوں نہیں؟ 1 ۔پہلے نبی کو کلی طور پر جھٹلا دیا جائے تو اس کی تائید کے لیے دوسرے نبی کی ضرورت ہوتی ہے : بے شک کچھ لوگوں نے نبی (ﷺ) کو جھٹلا دیا تھا لیکن آپ (ﷺ) کا کلمہ پڑھنے والے حضرات مکی دور سے لے کر اب تک رہے ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔ آپ (ﷺ) کی امت قیامت کے دن تمام امتوں سے زیادہ ہوگی۔ ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم ! وہ کہیں گے میں حاضر ہوں! میں حاضر ہوں! ہر قسم کی خیر آپ کے ہاتھ میں ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جہنمیوں کو الگ کرو آدم (علیہ السلام) پوچھیں گے جہنمی کتنے ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے ہیں۔ اس وقت بچے بوڑھے ہوجائیں گے۔ ہر حاملہ کا حمل گر جائے گا اور آپ دیکھیں گے کہ لوگ نشہ میں ہوں گے لیکن حقیقت میں نشہ کی حالت نہ ہوگی‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب سخت ہوگا صحابہ (رض) نے پوچھا اے اللہ کے رسول! کیا ہزار میں سے ایک شخص ہم میں سے ہوگا؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا خوش ہوجاؤ! اس لیے کہ ایک شخص تم میں سے ہوگا اور ہزار یا جوج ماجوج سے ہوگا۔ پھر آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں امید کرتا ہوں کہ جنتیوں میں چوتھائی تعداد تمہاری ہوگی ہم نے اللہ اکبر کہا پھر آپ نے فرمایا میں امید کرتا ہوں کہ جنتیوں میں تمہاری تعداد تیسرا حصہ ہوگی ہم نے اللہ اکبر کہا پھر آپ نے فرمایا میں امید کرتا ہوں، کہ تم جنت والوں میں نصف ہو گے ہم نے اللہ اکبر کہا آپ نے فرمایا تمہارا تناسب لوگوں میں ایک سیاہ بال کی طرح ہے جو سفید رنگ کے بیل پر ہو یا سفید بال کی مانند جو سیاہ رنگ کے بیل پر ہو۔“ [رواہ البخاری : باب قصۃ یأجوج ومأجوج] 2 ۔پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی شریعتیں نامکمل تھیں۔ آپ کا دین کامل اور اکمل ہے اس لیے آپ کے بعد کسی نبی کی ضرورت نہیں ہے : ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ [ المائدۃ:3] ” آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کردیا ہے اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور اسلام کو دین کے طور پر پسند کرلیا“ 3 ۔پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی لائی ہوئی کتب مسخ ہوگئیں، اس لیے کتاب اور نبی کی ضرورت تھی لہٰذا آپ مبعوث کیے گئے۔ تب اللہ تعالیٰ نے ایک کے بعد دوسرا نبی مبعوث فرمایا۔ یہاں تو قرآن مجید اپنی زبر، زیر کے ساتھ محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گا یہاں تک کہ آپ (ﷺ) کے ارشادات اور ان کے بیان کرنے والے راویوں کے نام اور کوائف بھی محفوظ کر لئے گئے ہیں۔ ﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ﴾ [ الحجر :9] ” یقیناً ہم نے قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔“ ﴿وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ للنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ﴾ [ النحل :44] ” اور ہم نے آپ کی طرف نصیحت اتاری، تاکہ آپ لوگوں کے سامنے کھول کر بیان کریں جو کچھ ان کی طرف اتارا گیا ہے اور تاکہ وہ غوروفکر کریں۔“ 4 ۔پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) مخصوص قوم اور زمانے کے لیے مبعوث کیے گئے تھے لیکن آپ کو (ﷺ) قیامت تک کے لیے تمام انسانوں کے لیے رسول بنایا گیا ہے۔ اس لیے اب کسی نبی کی ضرورت نہیں : ﴿قُلْ یٰٓا أَ یُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا﴾[ الاعراف :158] ” فرما دیں اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔“ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ﷺ) : " أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِي : كَانَ كُلُّ نَبِيٍّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً، وَبُعِثْتُ إِلَى كُلِّ أَحْمَرَ وَأَسْوَدَ. وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ، وَلَمْ تُحَلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي. وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَيِّبَةً طَهُورًا وَمَسْجِدًا، فَأَيُّمَا رَجُلٍ أَدْرَكَتْهُ الصَّلَاةُ صَلَّى حَيْثُ كَانَ. وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ بَيْنَ يَدَيَّ مَسِيرَةَ شَهْرٍ، وَأُعْطِيتُ الشَّفَاعَةَ)(رواہ مسلم:کتاب المساجدومواضع الصلاۃ) ” حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (ﷺ) نے فرمایا کہ مجھے پانچ ایسی چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں ہوئیں۔ ١۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے ہر کالے اور گورے کے لیے رسول بنایا ہے ٢۔ میرے لیے ساری زمین مسجد بنادی گئی ہے۔ ٣۔ میرے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا ہے جبکہ مجھ سے پہلے کسی رسول کے لیے حلال نہیں تھا۔ ٤۔ ایک مہینہ کی مسافت پر ہونے کے باوجود دشمن مجھ سے لرزاں رہتا ہے۔ ٥۔ مجھے قیامت کے دن سب سے پہلے شفاعت کا حق دیا جائے گا۔“ [ رواہ احمد : مسند ابی ذر ] مسائل: 1۔ نبی (ﷺ) مردوں میں کسی کے باپ نہیں۔ 2۔ حضرت محمد (ﷺ) خاتم المرسلین ہیں۔ 3۔ آپ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ تفسیر بالقرآن: آپ (ﷺ) کی عالمگیر نبوت کے چند دلائل : 1۔ اے رسول اعلان فرمائیں کہ ” اللہ“ نے مجھے تمام لوگوں کے لیے رسول منتخب فرمایا ہے۔ (الاعراف :158) 2۔ رسول اللہ پوری دنیا کے رسول ہیں۔ (سباء :28) 3۔ رسول اللہ مبشر اور نذیر ہیں۔ (الاحزاب :45) 4۔ رسول اللہ پوری دنیا کے لیے رحمت عالم ہیں۔ (الانبیاء :107) 5۔ رسول اللہ خاتم النبیین ہیں۔ (الاحزاب :40) 6۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (ﷺ) کو نبوت اور حکمت عنایت فرمائی۔ ( الجمعہ :2) 7۔ آپ (ﷺ) کی نبوت مومنوں پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے۔ (آل عمران :164) 8۔رسول اللہ پوری انسانیت کے لیے بشیرونذیر ہیں ۔(سبا:28)