يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا
اے نبی اپنی بیویوں سے کہہ دے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی آرائش چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ فائدہ دوں ۔ تمہیں اچھی طرح سے رخصت کروں
فہم القرآن: (آیت28سے29) ربط کلام : آیت 21میں نبی کریم (ﷺ) کو امت کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا ہے اس کے بعد غزوہ احزاب کا اختتام اور انجام بیان کیا اب اہل بیت کے حوالے سے نبی کریم کا اسوہ بیان کیا جاتا ہے۔ اے نبی (ﷺ) اپنی بیویوں سے فرماؤ۔ کہ اگر تم دنیا اور اسکی آرائش وزیبائش چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں حسب توفیق دے کر اچھے طریقے کے ساتھ رخصت کرتا ہوں اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو پسند کرتی ہو تو یقین کرو کہ اللہ تعالیٰ نے نیک لوگوں کے لیے بہترین اجر تیار کر رکھا ہے۔ نبی کریم (ﷺ) اپنی امت کے باپ تھے اور ازواج مطہرات گھر یلو خواتین تھیں انہیں کیا معلوم کہ صحابہ کرام (رض) کے معاشی حالات کیسے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک سربراہ کو اپنے ساتھیوں اور آئندہ نسلوں کے لیے نمونہ بننا ہوتا ہے۔ چند آیات پہلے یہ حقیقت بیان ہوچکی ہے کہ رسول اکرم (ﷺ) تمام مسلمانوں کے لیے بہترین نمونہ بنائے گئے ہیں ظاہر بات ہے کہ نمونہ تو وہی ذات ہو سکتی ہے جس کا ظاہر، باطن، گھریلو اور پبلک زندگی کا ایک ایک لمحہ امت کے لیے مثال ہو۔ امّہات المومنین نے آپ سے جب خوشحالی کا مطالبہ کیا تو آپ کو یہ بات اس قدر ناگوار گزری کہ آپ ایک مہینہ کے لیے ان سے الگ تھلگ ہوگئے۔ یہاں تک کہ یہ بات مشہور ہوگئی کہ آپ (ﷺ) نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) زُوْجَ النَّبِیِّ (ﷺ) اَخْبَرَتْہُ اَنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) جَآَءَ ہَا حِیْنَ اَمَرَ اللّٰہُ اَنْ یُخْیِّرَ اَزْوَاجَہٗ فَبَدَاءَ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) فَقَالَ اِنِّیْ ذَاکِرٌ لَّکَ اَمْرًا فَلَا عَلَیْکِ اَنْ تَسْتَعْجِلِیْ حَتّٰی تَسْتَاْمِرِیْ اَبَوَیْکِ وَقَدْ عَلِمَ اَنَّ اَبَوَیَّ لَمْ یَکُوْنَا یَاْمُرَانِیْ بِفَرَاقِہٖ قَالَتْ ثُمَّ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ قَالَ ﴿یَاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِاَزْوَجِکَ﴾ اِلٰی تَمَامِ الْاٰیَتَیْنِ فَقُلْتُ لَہٗ فَفِیْ اَیْ ہَذَا اَسْتَاْمِرُ اَبَوَیَّ فَاِنِّیْ اُرِیْدُ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَۃَ )[ رواہ البخاری : کتاب التفسیر باب قولہیا ایھا النبی قل لازواجک] ” سیدہ عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں اللہ تعالیٰ نے جب رسول (ﷺ) کو حکم دیا کہ آپ اپنی بیویوں کو اختیار دے دیں تو آپ ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا میں تیرے سامنے ایک معاملہ رکھنے لگا ہوں اور اس میں جلدی نہ کرنا یہاں تک کہ اپنے والدین سے مشورہ کرلو۔ سیدہ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ آپ کو علم تھا کہ میرے والدین مجھے آپ سے جدا ہونے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے، پھر آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اے نبی اپنی بیویوں سے کہہ دیں۔ دو آیات تلاوت کیں تو میں نے عرض کی کہ کیا اس بارے میں، میں اپنے والدین سے مشوہ کروں ؟ میں تو اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو ترجیح دیتی ہوں۔“ مسائل: 1۔ نبی اکرم (ﷺ) اپنی ذات اور اپنے گھر والوں کے لیے دنیا کی زیبائش پسند نہیں کرتے تھے۔ 2۔ میاں، بیوی کے درمیان علیحدگی احسن طریقہ سے ہونی چاہیے۔ 3۔ نیک بیوی کے لیے لازم ہے کہ وہ دنیا کی بجائے آخرت کو پسند کرے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ نے کن لوگوں کے لیے بہترین اجرتیار کر رکھا ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو ان کے اعمال کا بہترین صلہ دے گا۔ (التوبۃ:121) 2۔ اللہ تعالیٰ صابر لوگوں کو ان کے صبر کی بہترین جزا دے گا۔ (النحل :96) 3۔ اللہ تعالیٰ نیکوں کو ان کے اعمال سے بہتر جزا دے گا۔ (العنکبوت :7) 4۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مزیداجر عطا کرے گا۔ (النور ؛38) 5۔ اللہ تعالیٰ نیکوں کے اعمال سے بہتر صلہ عطاکریں گے۔ (النحل :97) 6۔ اللہ صبر کرنے والوں اور توکل کرنے والوں کو بہترین اجر عطا فرمائے گا۔ (العنکبوت :59) 7۔ ایمان لانے والوں، نماز قائم کرنے والوں اور زکٰوۃ دینے والوں کے لیے اللہ کے ہاں اجر ہے۔ (البقرۃ:277) 8۔اللہ پر ایمان لانے والوں اور توکل کرنے والوں کے لیے خیر ہی خیر ہے۔(الشوریٰ:36) 9۔صبر کرنے والوں کو بغیر حساب کے اجر دیا جائے گا۔(الزمر:10) 10۔ہم ایمان لانے والوں کو انکا اجر دینگے۔(الحدید:27)