فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
پھر جو کوئی بعد اس کے کہ تجھے عمل پہنچ چکا ‘ اس بارہ میں تجھ سے جھگڑے تو کہہ کہ آؤ ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں ایک جگہ جمع کریں ، پھر التجا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت بھیجیں ۔ (ف ١)
فہم القرآن : (آیت 61 سے 63) ربط کلام : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا اللہ کا بندہ اور رسول ہونا حق ہے۔ دلائل کے باوجود جو حق تسلیم نہیں کرتا اسے سمجھانے کا آخری طریقہ مباہلہ ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش اور ان کے خاندان کی مرحلہ وار تاریخ کے واضح دلائل اور روشن حقائق کے ساتھ نجران کے وفد کو دعوت دی۔ لیکن وہ اس کے باوجود کہنے لگے کہ ہم تو عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا سمجھتے ہیں۔ اس موقع پر آیت مباہلہ نازل ہوئی۔ مباہلہ کا معنٰی ہے عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کرنا کہ حق والا سرخرو ہو اور جھوٹے پر اللہ کی پھٹکار نازل ہو۔ رسول اللہ (ﷺ) نے نجران کے وفد کو فرمایا کہ کل میں اپنے اہل بیت کو لے کر فلاں وقت حاضر ہوں گا اور تم بھی اپنے ارکان کے ساتھ جمع ہوجانا۔ تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کریں کہ جھوٹے پر اللہ کی لعنت اور پھٹکار ہو۔ بعض روایات کے مطابق اگلے دن آپ حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حسن وحسین (رض) کو لے کر تشریف لائے۔ نجران کے وفد کے سربراہ اسقف اور ان کے پادری شرحبیل نے یہ کہہ کر اپنے وفد کو مباہلہ سے باز رکھا کہ محمد (ﷺ) واقعی نبی آخر الزمان ہیں اور نبی کی بد دعا مسترد نہیں ہوا کرتی۔ اگر مباہلہ ہوا تو ہم نیست ونابود ہو کر رہتی دنیا تک عیسائیوں کے لیے ننگ و عار ثابت ہوں گے۔ چنانچہ انہوں نے جزیہ دینے کی ذلت قبول کرلی۔ لیکن نعمت ہدایت کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس آیت کی تفسیر میں بریلوی مکتب فکر کے مفکرّ پیر کرم شاہ فرماتے ہیں : بعض لوگوں نے یہاں یہ ثابت کرنے کی بے جاکوشش کی ہے کہ نبی کریم (ﷺ) کی صرف ایک صاحبزادی حضرت فاطمہ (رض) ہی اہل بیت میں شامل کی گئی ہیں۔ ورنہ دوسری صاحبزادیاں بھی اس روز مباہلہ میں شرکت کرتیں۔ تو ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ تاریخ کی تمام معتبر کتب اور ناسخ التواریخ اور کافی وغیرہ میں موجود ہے کہ حضور (ﷺ) کی چار صاحبزادیاں تھیں۔ اس روز خاتون جنت کا اکیلے تشریف لانا اس لیے تھا کہ باقی صاحبزادیاں انتقال فرما چکی تھیں۔ حضرت رقیہ نے 2 ہجری میں، حضرت زینب نے 8 ہجری میں اور حضرت ام کلثوم نے 9 ہجری میں انتقال فرمایا جب کہ یہ واقعہ 10 ہجری میں پیش آیا۔ اس لفظ سے بعض لوگوں نے حضرت علی (رض) کی خلافت بلا فصل پر استدلال کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انفسنا سے مراد حضرت علی (رض) ہیں۔ جس سے ثابت ہوا کہ آپ نفس رسول ہیں۔ گویا آپ رسول جیسے ہیں۔ تو جب آپ حضور کے مساوی ہوگئے تو پھر آپ سے زیادہ خلافت کا حقدار اور کون ہوسکتا ہے ؟ تو اس کے متعلق التماس ہے کہ حضرت علی کا شمار ابناءنا میں ہے۔ کیونکہ آپ نبی (ﷺ) کے داماد تھے۔ اور داماد کو بیٹا کہا جاتا ہے۔ اور اگر انفسنا میں ہی شمار کریں تو عینیت اور مساوات کہاں سے ثابت ہوئی ؟ کیونکہ یہ لفظ تو ان لوگوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو قریبی رشتہ داریا دینی اور قومی بھائی ہوں۔ ان آیات اور تفصیلات کے بعد اس آیت میں ان سب کا ما حصل بیان فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی اللہ اور معبود نہیں۔ جو کسی مخلوق کو اللہ یا اللہ کا بیٹا تسلیم کرتا ہے وہ راہ راست سے بھٹک جاتا ہے۔ حقائق جھٹلانے والوں کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ توحید کا انکار اور حقائق سے انحراف کرنے والے فسادی ہیں۔ [ ضیاء القرآن : پیر کرم شاہ] مسائل : 1۔ جھگڑالو کے ساتھ مباہلہ کرنا جائز ہے۔ 2۔ جھوٹے پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔ 3۔ فسادی اللہ کے علم اور اس کی دسترس سے باہر نہیں ہوتے۔ 4۔ قرآن مجید کے بیان کردہ واقعات کہانیاں نہیں بلکہ حق اور سچ ہیں۔ تفسیربالقرآن : قصص قرآن کی حقیقت : 1۔ قرآن کے بیانات حق ہیں۔ (آل عمران :62) 2۔ قرآن کے قصے بہترین ہیں۔ (یوسف :3) 3۔ قرآن کے قصے نصیحت آموز ہیں۔ (یوسف :111)