سورة لقمان - آیت 27

وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِن شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِن بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور زمین میں جتنے درخت ہیں اگر سب قلم بن جائیں اور سمندر اس کی سیاہی ہو ۔ اس کے بعد سات سمندر اور اس کی مدد کریں تو بھی اللہ کی باتیں تمام نہ ہونگی بےشک اللہ غالب حکمت (ف 3) والا ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : جو ” اللہ“ زمین و آسمانوں کا مالک اور تعریف کے لائق ہے یاد رکھو کہ اس کی حمدوستائش کی انتہا نہیں۔ اس سے پہلی آیت میں ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ حمدوثنا کے لائق ہے اگر کافر اور مشرک اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا نہیں کرتے تو اسے اس کی کوئی پروا نہیں کیونکہ وہ اس قدر اَن گنت تعریفات کا مالک اور حق دار ہے کہ اگر کائنات کے تمام درختوں کی قلمیں بنالی جائیں اور سات سمندر سیاہی بنا دئیے جائیں۔ جن و انس، ملائکہ اور ہر جاندار چیز اپنے رب کی حمد لکھنے بیٹھ جائے تو ساتوں سمندر ختم ہوجائیں، قلمیں گھس گھس کر اپنا وجود کھو بیٹھیں سب کو سات گنا اور بڑھا لیاجائے تو پھر بھی آپ کے رب کی حمدوثنا ختم نہ ہو پائے گی کیونکہ جس کی نعمتوں کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔ (ابراہیم :34) اور نہ ہی اس کی مخلوق کا احاطہ کیا جا سکتا ہے۔ (المدثر :31) غور فرمائیں کہ کون ہے جو زمین کے ذرّات اور حشرات، سمندر کے قطرات اور اس کی مخلوقات، پہاڑوں کے سنگرات، زمین و آسمانوں کے ملائکہ کا شمار کرسکے۔ جب ہم اس کی نعمتوں اور مخلوقات کا شمار نہیں کرسکتے تو خالق کی حمدوثنا کس طرح احاطہ اور شمار کرسکتے ہیں نہ ہی خالق کی تخلیق کے فوائد اور اس کے حسن وجمال کا احاط کیا جا سکتا ہے۔ جب انسان اپنے خالق کے سامنے اس قدر بے بس اور اس کا خالق اس قدر تعریفات کے لائق اور اختیارات رکھنے والا ہے تو پھر دوسروں کو اس کا شریک بنانے اور اس کی نافرمانی کرنے کا کیا معنٰی؟ (عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا قَالَتْ : فَقَدْتُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ () لَیْلَۃً مِنَ الْفِرَاشِ فَالْتَمَسْتُہٗ فَوَقَعَتْ یَدِیْ عَلٰی بَطْنِ قَدَمَیْہِ وَھُوَفِی الْمَسْجِدِ وَھُمَا مَنْصُوْبَتَانِ وَھُوَیَقُوْلُ (اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِرَضَاکَ مَنْ سَخِطَکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عَقُوْبَتِکَ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْکَ لَا اُحْصِی ثَنَائً عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِک)) ” حضرت عائشہ (رض) بیان فرماتی ہیں۔۔ آپ دعا کر رہے تھے۔” اے اللہ! میں تیری ناراضگی کی بجائے تیری رضاکا طلب گار ہوں۔“ سزاکی بجائے معافی کا خواست گار ہوں اور میں تیری پناہ چاہتاہوں۔ مجھ میں تیری شایان شان تعریف کرنے کی طاقت وصلاحیّتیں نہیں۔“ [ رواہ مسلم : باب مَا یُقَالُ فِی الرُّکُوعِ وَالسُّجُودِ]