وَمَن كَفَرَ فَلَا يَحْزُنكَ كُفْرُهُ ۚ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ فَنُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
اور جو کوئی کافر ہوا تو اس کا کفر تجھے غمگین نہ کرے اور انہیں ہماری طرف پھر آنا ہے ۔ پھر جو وہ کرتے تھے ہم انہیں بتائیں گے بےشک جو دلوں میں ہے اللہ (ف 2) جانتا ہے
فہم القرآن: (آیت23سے24) ربط کلام : جس نے کتاب اللہ کے ساتھ تمسّک کرنے سے انکار کردیا اس کا انجام بدترین ہوگا۔ سروردوعالم (ﷺ) صبح و شام اس فکر اور کوشش میں رہتے تھے کہ لوگ ہدایت پر گامزن ہو کر جہنم کی ہولناکیوں سے اپنے آپ کو بچالیں۔ لیکن لوگ ہدایت کی طرف آنے کی بجائے گمراہی کی طرف سرپٹ دوڑے جاتے تھے۔ جس پر آپ دل گرفتہ ہوجاتے آپ (ﷺ) کو تسلی اور ڈھارس دینے کے لیے ارشاد ہوا کہ ان کے کفرو شرک پر جمے رہنے سے آپ دل گرفتہ نہ ہوں۔ آپ کا کام حق بات پہنچانا ہے جس کا آپ حق ادا کر رہے ہیں منوانا آپ کا کام نہیں۔ جو لوگ حق کا انکار کرتے ہیں بالآخر انہیں ہماری طرف لوٹنا ہے دنیا میں ہم ان کو قلیل فائدہ دیں گے اور پھر انہیں شدید عذاب کی طرف مجبور کردیں گے۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کا فائدہ مدّت اور حیثیت کے اعتبار سے بالکل ہی قلیل ہے۔ جہنم کی طرف مجبور کرنے کا معنٰی یہ ہے کہ جہنمی جہنم کو دیکھ کر آہ وزاریاں کریں گے مگر ملائکہ ان کو ہانک کر اور کسی کو چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیں گے۔ مسائل: 1۔ داعی کو لوگوں کے کفرو شرک پر دل گرفتہ ہونے کی بجائے اپنا کام جاری رکھنا چاہیے۔ 2۔ ہر کسی نے اپنے رب کے حضور پیش ہونا اور اپنے اعمال کا سامنا کرنا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال ہی نہیں بلکہ ان کے دلوں کی حالت بھی جانتا ہیں۔