سورة لقمان - آیت 22

وَمَن يُسْلِمْ وَجْهَهُ إِلَى اللَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ ۗ وَإِلَى اللَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جس نے اپنا منہ اللہ کی طرف متوجہ کیا اور وہ نیک ہے تو اس نے مضبوط کڑا پکڑ لیا اور ہر کام کا انجام خدا کی ہی طرف ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : آباؤ اجداد کی تقلید اور ادھر ادھر دینے کی بجائے آدمی کو اپنے رب کا فرمانبردار ہونا چاہیے۔ قرآن وسنت کے دلائل سے بے اعتنائی کرنا اور مذہبی رسومات یا خاندانی روایات کا لحاظ رکھتے ہوئے آباء و اجداد کی ڈگر پر چلنا حقیقت میں شیطان کی پیروی کرنا ہے۔ شیطان انسان کو جہنم میں لے جانا چاہتا ہے جہنم سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے چہرے کو اللہ کے حوالے کرے اور نیک کام کرتا رہے۔ جس نے اس فکر وعمل کو اپنالیا گویا کہ اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا جس کا ٹوٹنا نا ممکنات میں سے ہے۔ انسان کو یقین رکھنا چاہیے کہ تمام کاموں کا انجام اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اس بات کو یوں بھی بیان کیا گیا ہے کہ اے صاحب ایمان لوگو ! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو جس طرح اس سے ڈرنا چاہیے یہاں تک کہ تمہیں موت بھی اس کی تابعداری میں آئے اللہ کی رسی کو سب مل کر تھامے رکھو اور آپس میں تفریق پیدا نہ کرو (البقرہ : 102، 103) العُرْوَۃِ الْوُثْقٰی“ کا معنٰی مضبوط کڑا ہے جسے ” حَبْلُ اللّٰہ“ بھی کہا گیا ہے۔ آدمی جب گرنے یا ڈوبنے لگتا ہے تو وہ کسی نہ کسی چیز کو تھامنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ گرنے اور ڈوبنے سے بچ جائے اگر اس کا ہاتھ مضبوط کڑے ( Ring)کو پڑجائے تو اسے یقین ہوجاتا ہے کہ وہ گرنے سے بچ جائے گا۔ یہی حقیقی ایمان کا فائدہ ہے۔ کہ جس آدمی کا اپنے رب پر سچا اور پکا ایمان ہو تو وہ کسی صورت بھی کفر و شرک کے گڑھے میں نہیں گرتا اس فرمان سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کو اپنا ایمان اللہ تعالیٰ پر مضبوط سے مضبوط رکھنا چاہیے۔ ایسا شخص ہر حال میں اپنے رب پر راضی رہتا اور اس سے اجر پاتا ہے۔ اپنے چہرے کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رکھنے یا حوالے کرنے کا معنٰی پوری طرح اس کی تابعداری کرنا ہے۔ کیونکہ انسان جب کسی راستے پر چلتا ہے تو اس کے چہرے کا رخ بھی اسی طرف ہوتا ہے۔ نبی (ﷺ) کو اسی بات کا حکم دیا گیا۔ ﴿فَاَقِمْ وَجْھَکَ للدِّیْنِ حَنِیْفًا فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْن﴾[ الروم :30] ” اے نبی یک سو ہو کر اپنا رخ اس دین پر قائم رکھو، وہ فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی فطرت بدلی نہیں جا سکتی، یہی مستقل دین ہے، مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ (کِتَاب اللّٰہِ ھُوَحَبْلُ اللّٰہِ اَلْمَمْدُوْدُ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الْاَرْضِ) [ جامع الصغیر للألبانی] ” اللہ کی کتاب ہی اللہ کی رسّی ہے جو آسمان سے زمین کی طرف لٹکائی گئی ہے۔“ (عَنْ صُہَیْبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ () عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ)[ رواہ مسلم : کتاب الزہد والرقائق، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر] ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا مومن کے معاملات عجیب ہیں۔ اس کے تمام معاملات میں خیر ہے اور یہ صرف مومن کے لیے ہے اگر اس کو آسانی ملتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے یہ اسکے لیے بہتر ہے اور اگر اسے تکلیف آتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے یہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔“ مسائل: 1۔ انسان کو ہر حال میں اپنی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف رکھنا چاہیے۔ 2۔ انسان کو ہر حال میں نیکی کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ 3۔ کتاب اللہ کے ساتھ تمسّک کرنے والا ہی آخرت میں کامیاب رہے گا۔ تفسیر بالقرآن: محسن کے اوصاف : 1۔ اللہ کے سامنے جھک جانے والامحسن ہے۔ (لقمان :22) 2۔ بے شک اللہ محسنین کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (یوسف :90) 3۔ صبر کرو اللہ محسنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ ( ھود :115) 4۔ اللہ کی رحمت محسنین کے قریب ہوا کرتی ہے۔ (الاعراف :56) 5۔ ہم تمہارے گناہ مٹا دیں گے اور عنقریب ہم محسنین کو زیادہ عطا کریں گے۔ (البقرۃ:58) 6۔ احسان کرو یقیناً اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (البقرۃ:195) 7۔ انہیں معاف کیجیے اور در گزر کیجیے یقیناً اللہ محسنین کو پسند فرماتا ہے۔ (المائدۃ:13) 8۔جس نے اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دیا وہ محسن ہےاسے کوئ خوف اور غم نہیں ہوگا۔(البقرۃ:112)