سورة لقمان - آیت 18

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور مت موڑ اپنے گال واسطے لوگوں کے اور زمین پر اترا (ف 1) کر نہ چل بےشک اللہ کسی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت18سے19) ربط کلام : حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو مزید چار وصیتیں۔ ایک اچھے مسلمان اور بہترین مبلّغ کے لیے لازم ہے کہ وہ ان باتوں کا خیال کرے جو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو ارشاد فرمائی ہیں۔ عظیم دانشور اپنے بیٹے کو اخلاق اور کردار کے حوالے سے سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ لوگوں سے تکبر اور لاپرواہی سے اپنے چہرہ کو نہ پھیرنا۔ زمین پر اکڑ کر نہ چلنا۔ یقیناً یہ فخرو غرور کا انداز ہے یاد رکھ کہ رب ذوالجلال کو فخروغرور کرنے والے لوگ پسند نہیں۔ جو شخص ان باتوں کا خیال نہیں رکھتا بے شک وہ علمی، مالی، سماجی اور سیاسی لحاظ سے کتنا بڑا کیوں نہ ہو بالآخر لوگ اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں بسا اوقات متکبر شخص کے سامنے لوگوں کی گردنیں جھکی ہوئی ہوتی ہیں۔ مگر ان کے دل اس سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ ( عَنْ اَنسٍ (رض) اَنَّ رَسُوْ لَ اللّٰہِ () کَانَ اِذَا صَافَحَ الرَّجُلُ لَمْ یَنْزِعْ یَدَہٗ مِنْ یَدِہٖ حَتّٰی یَکُوْنَ ہَوُ الَّذِیْ یَنْزِعْ یَدَہٗ وَلَا یَصْرِفُ وَجَہَہٗ عَنْ وَجْہِہٖ حَتّٰی یَکْوْنَ ہُوَالَّذِیْ یَصْرِفُ وَجْہَہٗ عَنْ وَجْہِہٖ وَلَمْ یُرَ مُقَدِّماً رُکْبَتَیْہِ بَیْنَ یَدَیْ جَلِیْسٍ لَہٗ) [ شرح السنۃ للبغوی(حسن)] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ (ﷺ) جب کسی آدمی سے ہاتھ ملاتے تو آپ اس کے ہاتھ کھینچے سے پہلے اپنے ہاتھ کو الگ نہ کرتے اور نہ ہی آپ اپنے چہرے کو اس کے چہرے سے ہٹاتے جب تلک وہ اپنے چہرے کو خود نہ ہٹا لیتا۔ چلنا، اکڑ کر اور نہ ہی آپ (ﷺ) نے مجلس میں بیٹھے ہوئے اپنے گھٹنوں کو کبھی دراز کیا۔“ چال ڈھال میں میانہ روی : حضرت لقمان اپنے بیٹے کو یہ وصیت بھی کرتے ہیں کہ بیٹا اکڑ کر نہ چلنے کا یہ معنٰی نہیں کہ آدمی بیماروں کی طرح چلے اس کا مفہوم یہ ہے کہ درمیانے انداز اور رفتار میں چلنا چاہیے۔ جس میں تندرستی کے اظہار کے ساتھ، تواضع بھی ہونی چاہیے اس میں پیدل چلنا ہی شامل نہیں بلکہ سواری کی رفتار بھی اسی انداز کی ہونی چاہیے بعض لوگ گاڑی ڈرائیو کر رہے ہوں تو اس سپیڈ کے ساتھ گزرتے ہیں کہ پیدل چلنے والے کا کلیجہ کانپ جاتا ہے۔ راستے میں پانی ہو تو راہگیروں کے کپڑے گندے ہوجاتے ہیں ایسے آدمی کو لوگ بدعائیں ہی دیا کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں یہ اصول مسلّمہ ہے کہ تیز رفتاری سے ایکسیڈنٹ زیادہ ہوتے ہیں اس لیے آدمی پیدل ہو یا سوار اسے میانہ روی کا خیال رکھنا چاہیے۔ چلنے کا انداز اور میانہ روی : زمین پر اکڑ کر چلنے سے انسان بڑا نہیں ہوجاتا انسان بڑا ہوتا ہے تواضع اور انکساری کے ساتھ۔ جس قدر لوگوں کے ساتھ تواضع اختیار کرے گا۔ اسی قدر ہی ان میں بڑا بنتا جائے گا۔ اکڑ کر چلنے کے بارے میں قرآن مجید میں ان الفاظ کے ساتھ مذمت کی گئی ہے۔ ﴿وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا﴾ [ بنی اسرائیل :37] ” اور زمین میں اکڑ کر نہ چل، بے شک تو نہ زمین کو پھاڑ سکے گا اور نہ اونچائی میں پہاڑوں تک پہنچ پائے گا۔“ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قاَلَ مَارَایْتُ شَیْئا اَحْسَنَ مِنْ رَسُوْلُ اللّٰہِ () کَاَنَّ الشَّمْسَ تَجْرِیْ فِیْ وَجْہِہٖ وَمَا رَایْتُ اَحَدًا اَسْرَعَ فِیْ مَشْیِہٖ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ () کَاَنَّمَا الْاَرْضُ تُطْوٰی لَہٗ اِنَّا لَنُجْہِدُ اَنْفُسَنَا وَاِنَّہٗ لَغَیْرُ مُکْتَرِثٍ) [ رواہ الترمذی : باب فی صفۃ النبی() (ضعیف) ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے بڑھ کر کسی کو حسین نہیں دیکھا گویا کہ سورج آپ کے چہرے میں رواں دواں ہو۔ میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے زیادہ تیز چلنے والا کسی کو نہیں دیکھا اس طرح دکھائی دیتا گویا کہ آپ کے لیے زمین سکڑ گئی ہے۔ ہمیں آپ کے ساتھ ملنے کے لیے کوشش کرنا پڑتی، اور آپ کو کسی قسم کی مشقت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔“ (کَانَ عَلِیٌّ إِذَا وَصَفَ النَّبِیَّ () قَالَ۔۔ إِذَا مَشٰی تَقَلَّعَ کَأَنَّمَا یَمْشِیْ فِی صَبَبٍ)[ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ النَّبِیّ() (ضعیف) ] ” حضرت علی (رض) نبی اکرم (ﷺ) کی صفات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) قدرے جھک کرچلتے جیسے ڈھلوان سے نیچے اتر رہے ہوں۔“ (یعنی گردن اکڑا کر نہیں چلتے بلکہ ہلکا سا جھکاؤ لیے ہوئے چلا کرتے ہیں۔) گفتگو میں میانہ روی رکھیں : حضرت لقمان اپنے بیٹے کو پے درپے نصیحتیں کرتے ہوئے سمجھاتے ہیں کہ میرے لخت جگر اپنی آواز بھی بلا ضرورت بلند نہ کرو۔ خواہ مخواہ اور بلا وجہ اونچی آواز سے بولنا گدھے کی طرح بولنا ہے۔ عقل مندی اور سنجیدگی کا تقاضا ہے کہ آدمی ماحول اور ضرورت کا خیال رکھتے ہوئے آواز بلند کرے۔ چاہے وہ کتنا بڑا خطیب کیوں نہ ہو۔ اسے ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں میری آواز اور لب ولہجہ میں تصنّع اور کراہت تو نہیں پائی جاتی۔ یہی اصول نماز میں ہونا چاہیے لاؤڈ اسپیکر کی آواز کاتوبالخصوص خیال رکھنا چاہیے۔ ﴿وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ ۚ إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ﴾[ لقمان :19] (عَنْ اَبِیْ ھُرَیرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () اِذَا سَمِعْتُمْ صِیاح الدِّیکَۃِ فَسَلُوْا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ فَاِنَّھَا رَأَتْ مَلَکًا وَاِذَا سَمِعْتُمْ نَھِیقَ الْحِمَارِ فَتَعَوَّذُوْا باللّٰہِ مِنَ الشَّیطَان الرَّجِیمِ فَاِنَّہُ رَاٰی شَیطَانًا) [ رواہ البخاری : باب خیر مال المسلم] حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا جب تم مرغ کی اذان سنو تو اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگا کرو۔ کیونکہ وہ فرشتے کو دیکھتا ہے اور جب گدھے کو ہینگتا سنو تو ” اَعُوْذُ باللّٰہِ مِن الشَّیْطٰنِ الرَّجِیمِ“ پڑھو۔ کیونکہ گدھا شیطان کو دیکھ کر ہینگتا ہے۔ مسائل: 1۔ لوگوں کے ساتھ متکبرانہ انداز اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ 2۔ چال، ڈھال اور بولنے میں میانہ روی ہونی چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ متکبر اور مغرور آدمی کو پسند نہیں کرتا۔ 4۔ سب سے مکروہ آواز گدھے کی آواز ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ متکبر اور مغرور آدمی کو پسند نہیں کرتا۔ 1۔ متکبر کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ (النحل :23) 2۔ اللہ تعالیٰ اترانے والے کو پسند نہیں کرتا۔ ( القصص :76) 3۔ زمین میں اکڑ کر نہ چل! نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ پہاڑوں کی بلندیوں کو پہنچ سکتا ہے۔ (بنی اسرائیل :37) 4۔ اللہ تکبر اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔ (لقمان :18) 5۔ جو کچھ اللہ نے تمہیں عطا کیا ہے، اس پر اتراؤ نہیں کیونکہ اللہ فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (الحدید :23) 6۔ یقیناً اللہ تکبر اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔ (النساء :36)