سورة لقمان - آیت 16

يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُن فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اے میرے بیٹے ! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر بھی ہو ۔ پھر وہ کسی پتھر یا آسمانوں یا زمین ہو اسے بھی اللہ موجود کرے گا ۔ بےشک اللہ باریک بین خبردار ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو دوسری وصیت۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو آخرت کی جو ابدہی کا احساس دلاتے ہوئے فرمایا کہ بیٹا انسان چھپ کر گناہ کرے یا اعلانیہ۔ رات کو کرے یا دن کی روشنی میں۔ گناہ بڑا ہو یا چھوٹا۔ بے شک وہ رائی کے دانے کے برابر ہی کیوں نہ ہو وہ زمین کی گہرائیوں میں ہو یا پہاڑ کی چوٹی پر یہاں تک کہ آسمانوں میں چھپا ہوا ہو۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی بارگاہ میں ضرور حاضر کرے گا کیونکہ وہ باریک سے باریک چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔ جس شخص کا یہ ذہن بن جائے کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت اور ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔ وہ جب چاہے پکڑ سکتا ہے اس نے پکڑ لیا تو اس کی پکڑ سے کوئی چھڑا نہیں سکتا۔ وہ شخص گناہ نہیں کرسکتا اگر بتقاضأ بشریت اس سے گناہ سرزد ہوجائے تو وہ زیادہ دیرتک توبہ کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس لیے قرآن مجید انسان کو یہ عقیدہ اور ذہن دیتا ہے کہ اے انسان تو جہاں کہیں ہو تیرا رب اپنے علم اور اقتدار کے حوالے سے تیرے ہی ساتھ ہوتا ہے۔ ” کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کو اللہ جانتا ہے۔ جب تین آدمی سرگوشی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ چوتھا ہوتا ہے اور جب پانچ آدمی سرگوشی کرتے ہیں تو اللہ ان کے ساتھ چھٹا ہوتا ہے۔ اسی طرح اس سے کم یا زیادہ ہوں تو اللہ ضرور ان کے ساتھ ہوتا ہے وہ کہیں بھی ہوں۔ پھر قیامت کے دن جو کام انہوں نے کیے ہیں ان کی ان کو خبر دے گا۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والاہے۔“ (المجادلۃ: ٧) اللہ تعالیٰ ذات کے اعتبار سے نہیں اپنے علم، اقتدار اور اختیارات کے حوالے سے ہر جگہ موجود ہوتا ہے۔ ﴿وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۚ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ﴾ [ الانعام :59] ” اور اسی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں انہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ جانتا ہے جو کچھ خشکی اور سمندر میں ہے اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اسے جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی تر اور خشک دانہ نہیں مگر وہ ایک واضح کتاب میں لکھا ہوا ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () أَنَّ رَجُلاً کَانَ قَبْلَکُمْ رَغَسَہُ اللَّہُ مَالاً فَقَالَ لِبَنِیْہِ لَمَّا حُضِرَ أَیَّ أَبٍ کُنْتُ لَکُمْ قَالُوا خَیْرَ أَبٍ قَالَ فَإِنِّیْ لَمْ أَعْمَلْ خَیْرًا قَطُّ، فَإِذَا مُتُّ فَأَحْرِقُوْنِی ثُمَّ اسْحَقُوْنِیْ ثُمَّ ذَرُّونِیْ فِی یَوْمٍ عَاصِفٍ فَفَعَلُوْا، فَجَمَعَہُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ مَا حَمَلَکَ قَالَ مَخَافَتُکَ فَتَلَقَّاہُ بِرَحْمَتِہِ) [ رواہ البخاری : باب حدثنا ابو الیمان] ” حضرت ابو سعید نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ تم سے پہلے ایک آدمی گزرا ہے جسے اللہ نے مال کی فراوانی عطا کی تھی اس نے موت کے وقت اپنے بیٹوں کو کہا میں نے کبھی نیک عمل نہیں کیا جب میں مرجاؤں تو مجھے جلا کر میری راکھ کو ہواؤں میں اڑا دینا، انہوں نے ایسا ہی کیا اللہ عزوجل نے اسے زندہ کیا، اور پوچھا کہ تجھے اس کام پر کس چیز نے ابھارا تھا ؟ وہ کہنے لگا کہ آپ کے ڈر نے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت میں لے لیا۔“ مسائل: 1۔ انسان جہاں کہیں ہو وہ اللہ تعالیٰ سے نہیں چھپ سکتا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ باریک سے باریک چیز کو جانتا ہے۔ 3۔ قیامت کے دن انسان کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز جانتا ہے۔ (ہود :5) 2۔ جوا للہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ (البقرہ :216) 3۔ اللہ تعالیٰ کا علم فرشتے بھی نہیں جانتے۔ (البقرہ :30) 4۔ اللہ تعالیٰ خشکی اور تری کی پوشیدہ چیزوں کو جانتا ہے۔ (الانعام :59) 5۔ ہر گرنے والا پتّہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتا ہے۔ (الانعام :59) 6۔ اللہ تعالیٰ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے۔ (المومن :19) 7۔ اللہ تعالیٰ کے لیے یکساں ہے جو لوگ چھپاتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں۔ ( الرعد :10)