خَلَقَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ وَأَلْقَىٰ فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ ۚ وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ
اسی نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے پیدا کیا کہ تم انہیں دیکھ رہے ہو اور زمین میں پہاڑ (بطور) بوجھ ڈال (ف 1) دیئے ۔ تاکہ وہ (زمین) تمہیں لے کر جھک نہ پڑے اور ہر طرح کے جانور اس میں پھیلائے اور آسمان سے ہم نے پانی اتارا ۔ پھر اس میں ہر قسم کے نفیس جوڑے اگائے۔
فہم القرآن: ربط کلام : جو ” اللہ“ کفار کو عذاب الیم دے گا اور ایمان داروں کو جنت عطا فرمائے گا اس کی شان یہ ہے کہ اس نے بغیر ستونوں کے آسمان ٹھہرائے اور بلند وبالا پہاڑ بنائے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنی دو عظیم قدرتوں اور دوبڑی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ اللہ وہ ہے جس نے بغیر ستونوں کے ایک دوسرے پر آسمان کھڑے کیے ہیں۔ جن کے بارے میں اب تک سائنسدانوں کا خیال ہے کہ صرف ایک ہی آسمان ہے اور وہ بھی ٹھوس میٹریل سے بنا ہوا نہیں بلکہ اکثر سائنسدان کہتے ہیں کہ حدِّ نظر کا نام آسمان ہے۔ کچھ سائنسدانوں کا نقطہ نظر ہے کہ آسمان موجود ہے۔ لیکن یہ ٹھوس چھت ہونے کی بجائے ایک دھواں ہے جس تک ہماری نظر نہیں پہنچ سکتی۔ حالانکہ حدیث میں اس بات کی وضاحت ہے کہ آسمان ایک دوسرے کے اوپر ہیں ان کے درمیان فاصلے ہیں اور ان میں دروازے میں جن سے ملائکہ زمین پر آتے جاتے ہیں۔ کچھ اہل علم نے یہ بھی ترجمہ اور مفہوم لکھا ہے کہ آسمان کے نیچے ستون ہیں لیکن انسان انہیں دیکھ نہیں سکتے۔ پہاڑوں کے بارے میں جدید تحقیقات جاننے کے لیے فہم القرآن: کی جلد 3سورۃ الرّعد آیت : 3ملاحظہ فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ ہی آسمان سے بارش نازل کرتا ہے اور اس کے ذریعے ہر قسم کے پھل پیدا کرتا ہے یہاں ﴿ زَوْجٌ کَرِیْمٌ﴾ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ قرآن مجید نے دنیا کو پہلی بار اس حقیقت سے آگاہ فرمایا کہ جاندار چیزوں کے نر اور مادہ کی طرح اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں۔ جس طرح کھجور کے درخت میں نر اور مادہ ہوتے ہیں اسی طرح دوسرے درختوں میں بھی نر اور مادہوتے ہیں۔ ” حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (ﷺ) کے پاس موجود تھا جب آپ کے پاس بنو تمیم کے کچھ لوگ آئے۔ آپ نے فرمایا‘ اے بنو تمیم! خوشخبری قبول کرو۔ انہوں نے کہا آپ ہمیں خوشخبری دیتے ہیں، لیکن کچھ ہمیں عطا بھی کریں۔ ان کے بعد اہل یمن کے کچھ لوگ آئے آپ نے فرمایا کہ اے اہل یمن ! خوشخبری قبول کرو‘ آپ سے پہلے بنو تمیم نے اسے قبول نہیں کیا۔ انہوں نے کہا ہم قبول کرتے ہیں آپ کی خدمت میں ہم اس لیے حاضر ہوئے ہیں تاکہ ہم دین کی سمجھ حاصل کریں اور ہم آپ سے کائنات کی ابتداء کے بارے میں پوچھیں کہ سب سے پہلے کیا چیز تھی؟ آپ نے فرمایا کہ ” اللہ“ تھا‘ اور اس سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی اس کا عرش پانی پر تھا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا فرمایا۔ پھر لوح محفوظ میں تمام امور لکھے۔ عمران (رض) کہتے ہیں پھر ایک شخص میرے پاس آیا، اس نے کہا، اے عمران! اپنی اونٹنی کو تلاش کروکیونکہ وہ بھاگ گئی ہے۔ میں اسے ڈھونڈنے نکلا اللہ کی قسم مجھے یہ زیادہ پسند تھا کہ اونٹنی چلی جاتی‘ لیکن میں نہ اٹھتا۔“ [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہ ﴿وَکَانَ عَرْشُہُ عَلَی الْمَاءِ ﴾] مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے بغیر ستونوں کے آسمان کھڑے کیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے زمین پر پہاڑ گاڑ دئیے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہی آسمان سے بارش برساتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نباتات، پھل اور ہرقسم کا اناج پیدا کرتا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے نباتات کے بھی جوڑے پیدا کیے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: قرآن مجید میں پہاڑوں کا ذکر : 1۔ اللہ نے تمہارے لیے سایہ دار چیزیں بنائیں اور اسی نے تمہارے لیے پہاڑوں میں چھپنے کی جگہ بنائی ہے۔ (النحل :81) 2۔ کیا ہم نے زمین کو بچھونا اور پہاڑوں کو میخیں نہیں بنایا؟ (النباء : 6، 7) 3۔ اللہ تعالیٰ نے زمین میں پہاڑگاڑ دیے۔ (النازعات :32) 4۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں میں راستے بنائے ہیں۔ (الانبیاء :31) 5۔ تم پہاڑوں کو کھود کھود کر خوبصورت گھر بناتے ہو۔ (الشعراء :149) 6۔ اللہ نے زمین کو جائے قرار بنایا اس میں پہاڑ اور دو سمندروں کے درمیان پردہ بنایا۔ (النمل :61) 7۔ ہم نے داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کیا اور وہ بھی صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کرتے۔ (الانبیاء :79) 8۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا ؟ کہ زمین و آسمان کی ہر چیز، چاند، سورج اور ستارے، پہاڑ، درخت اور چوپائے اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الحج :18)