سورة آل عمران - آیت 54

وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور انہوں نے (یعنی کافروں نے) فریب کیا اور اللہ نے بھی وٹو کیا ، اور اللہ تعالیٰ کا داؤ سب سے بہتر ہے ۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 54 سے 55) ربط کلام : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیغام کا ردّ عمل اور ان کی حفاظت کے ساتھ اہل ایمان کی برتری کا اعلان۔ حالات اس نہج پر پہنچے کہ یہودیوں کے مذہبی اور سیاسی رہنما حاکم وقت کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہوگئے کہ یہ شخص یہودیت کے لیے زہر قاتل اور مذہب کی آڑ میں حکومت کا تختہ الٹنا چاہتا ہے۔ اس سازش کو کامیاب بنانے کے لیے یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں میں سے یہودا نامی شخص کو بھاری رشوت دے کر وعدہ معاف گواہ بنایا اس نے سرکاری اہلکاروں کو مخبری کردی کہ عیسیٰ (علیہ السلام) فلاں پہاڑیوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ اس گرفتاری سے بچنے کے لیے بارہ حواریوں کے سوا باقی سب حواری عیسیٰ (علیہ السلام) کو چھوڑ کر رفوچکر ہوگئے۔ قیصرِروم کے نمائندے شام کے گورنر ہیرو ڈیس نے آپ کو گرفتار کیا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ گرفتاری کے وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے چہرۂ مبارک پر تھپڑ مارے گئے۔ یہ بات اس لحاظ سے غلط معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے وہ جلال بخشا تھا کہ بڑے بڑے گستاخ یہودی دائیں بائیں تو ان کی ولادت باسعادت کے بارے میں تہمت لگاتے تھے لیکن ان کے سامنے ایسا کہنے کی جرأت نہیں کرسکتے تھے۔ بہرحال عیسیٰ (علیہ السلام) گرفتار ہوئے مقدمہ چلا اور وقت کی حکومت نے انہیں الزامات سے بری الذمہ قرار دیا لیکن یہودیوں کے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں نے ایسا ماحول پیدا کردیا کہ بالآخر شام کے گورنر نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے نائب بلاطوس کے حوالے کیا۔ اس نے رائے عامہ کے ہاتھوں مجبور ہو کر یہ کہتے ہوئے عیسیٰ (علیہ السلام) کوسولی پر لٹکانے کا فیصلہ دیا کہ یہ جرم میری گردن کے بجائے تمہاری گردن پر ہوگا۔ یہودیوں نے متفق ہو کر کہا کہ ہمیں یہ منظور ہے۔ جب عیسیٰ (علیہ السلام) کو تختہ دار پر لے جانے کے لیے آدمی آگے بڑھے تو بعض روایات کے مطابق حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سوئے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اسی حالت میں آسمانوں پر اٹھا لیا اور جو لوگ انہیں لینے کے لیے آگے بڑھے ان میں سے یہودا کو عیسیٰ (علیہ السلام) کے مشابہ کردیا گیا سرکاری اہلکاروں نے اسے عیسیٰ سمجھ کر سولی چڑھا دیا۔ اس لیے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں قرآن مجید نے یہ الفاظ استعمال فرمائے۔ ﴿وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَاَ صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ﴾ [ النساء :157] کہ انہوں نے نہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کیا اور نہ ہی سولی پر چڑھا سکے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایک شخص کو مشابہ کردیا۔ اسی واقعہ کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف مکروفریب کیا۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے پر حکمت تدبیر کے ذریعے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر اٹھا لیا اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی بہتر تدبیر کرنے والا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہودیوں کے الزامات اور مقدمات سے محفوظ فرماکر اپنے ہاں رفعت مکانی سے ہمکنار کیا اور فرمایا کہ قیامت کے دن تم سب نے میرے ہاں لوٹ کر آنا ہے اور میں تمہارے اختلافات کا قطعی اور آخری فیصلہ کروں گا۔ تاہم جو لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کے متبعین ہیں انہیں قیامت کے دن عیسیٰ (علیہ السلام) کی ذات اور ان کی نبوت کا انکار کرنے والوں پر بلند رکھوں گا۔ مفسّرین نے ان الفاظ کے دو مفہوم درج فرمائے ہیں کہ عیسائی علمی اور سیاسی طور پر ہمیشہ یہودیوں پر غالب رہیں گے۔ چنانچہ آج بھی اسرائیل کے علاوہ یہودیوں کی کہیں حکومت اور عزت نہیں پائی جاتی۔ اسرائیلی حکومت بھی امریکہ، برطانیہ اور دوسرے عیسائی ملکوں کے سہارے قائم ہے ان کے بغیر یہودی اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے۔ بعض عیسائی قرآن مجید کے اس مقام سے مسلمانوں کو یہ مغالطہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ دیکھیں تمہارا قرآن ہماری بالا دستی کی گواہی دے رہا ہے حالانکہ یہ بات قرآن کے مفہوم اور تاریخی حقائق کے سراسر خلاف ہے کیونکہ مسلمان تقریبًا ایک ہزار سال تک دنیا میں بلاشرکت غیرے حکومت کرتے رہے ہیں اور عیسائی مسلمانوں کے زیر دست اور ذمی بن کررہے ہیں اس لحاظ سے صحیح مفہوم یہ ہے کہ جو عیسائی مسلمان ہوجائیں وہ یہودیوں پر بالادست رہیں گے۔ اگر عیسائیوں اور یہودیوں کا مقابلہ کیا جائے تو عیسائی سیاسی اور علمی طور پر یہودیوں پر غالب رہیں گے۔ یاد رہے کہ عربی میں مکر کا معنی فریب، دھوکہ دہی اور سازش ہوا کرتا ہے لیکن جب اس لفظ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کی طرف ہو تو اس کا معنی ہوتا ہے تدبیر کرنا۔ یہاں اسی فرق کے ساتھ یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے رفع آسمانی پر یہودیوں، عیسائیوں اور مرزائیوں کے مؤقف کا جواب : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پوری زندگی معجزات سے عبارت ہے۔ وہ بن باپ پیدا ہوئے، جھولے میں اپنی والدہ ماجدہ کی براءت اور صاحب کتاب نبی ہونے کا اعلان فرمایا، یہودیوں نے تختۂ دار پر چڑھانے کی کوشش کی تو جسد اطہر سمیت آسمانوں پر اٹھا لیے گئے۔ ان کے رفع آسمانی کے بارے میں یہاں قدرے اجمال کے ساتھ بیان ہوا ہے لیکن سورۃ النساء : آیت 157، 158میں کھل کر اس بات کی تردید کی گئی کہ جو لوگ یہ دعو ٰی کرتے ہیں کہ انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی پر چڑھا دیا ہے وہ سراسر اٹکل پچو اور غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا اور پھانسی دینے والوں نے کسی دوسرے آدمی کو سولی پر چڑھادیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اتنی واضح اور دوٹوک تردید کے بعدبھی یہودی اپنے خبث باطن کی تسکین اور بے بنیاد کامیابی پر اتراتے ہوئے دعو ٰی کرتے ہیں کہ ہم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو پھانسی پر چڑھا دیا ہے۔ عیسائیوں کے ایک فرقہ کو چھوڑ کر باقی سب نے یہودیوں کا جواب دینے کے بجائے اپنے مفادات اور لوگوں کو آوارگی کا سر ٹیفکیٹ دینے کے لیے یہ عقیدہ بنایا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سولی پر چڑھ کر ہمارے گناہوں کا کفارہ بن چکے ہیں۔ گویا کہ یہودی جہنم میں چند دن جانے کے قائل ہیں عیسائیوں نے جہنم کا قصہ ہی پاک کردیا ہے۔ ان کی دیکھا دیکھی مرزا قادیانی نے یہ کہہ کر نبوت کا دعو ٰی کیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) تو فوت ہوئے۔ قرب قیامت جس مسیح موعود کی بشارت دی گئی ہے وہ میں ہی ہوں۔ اپنے موقف کو سچا ثابت کرنے کے لیے مرزائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی قبر بھی کشمیر میں ڈھونڈ نکالی تاکہ ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالا جاسکے رسالت مآب (ﷺ) کا معجزہ ہے کہ کسی جھوٹے نبی کی نبوت زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔ ہر دور کے لوگوں نے جلد ہی ایسے کذّاب سے اللہ کی زمین کو پاک کردیا لیکن ہندوستان میں مرزائیوں کو انگریز کی وجہ سے ساز گار ماحول میسر ہوا۔ اس لیے یہ جھوٹا نبی ہندؤوں، عیسائیوں اور اسلام دشمن لوگوں کی سرپرستی میں محفوظ رہا لیکن علمی اور اعتقادی طور پر علماء نے اسے آگے نہیں بڑھنے دیا۔ مسلمانوں نے اپنی گروہی تفریق کے باوجود مرزائیوں کا ناطقہ بند کردیا اس سلسلہ میں تمام علماء اور مذہبی جماعتوں کی خدمات لائقِ تحسین ہیں۔ سب سے پہلے مرزا کے خلاف مولانا محمد حسین بٹالوی (رح) نے کفر کا فتویٰ جاری کرنے کی ابتدا کی۔ جب کہ مرزا کا انجام شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری (رح) کے ہاتھوں ہوا۔ انہی کے ساتھ مرز انے مباہلہ کیا جس کے نتیجے میں لاہور برانڈرتھ روڈ پر احمدیہ مارکیٹ میں اپنے ایک مرید کے گھر لیٹرین میں واصل جہنم ہوا۔ اس کے بعد 1973 ء میں علماء کی زبردست تحریک پر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے آئینی طور پر مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ مسائل : 1۔ اللہ بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو جسد اطہر سمیت آسمان پر اٹھا لیا۔ 3۔ سب نے اللہ تعالیٰ کے ہاں پیش ہونا ہے اور وہی اختلافات کا فیصلہ فرمائے گا۔ تفسیربالقرآن : رفع حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) : 1۔ آسمانوں پر اٹھانے کا اعلان۔ (آل عمران :55) 2۔ عیسیٰ (علیہ السلام) قتل نہیں ہوئے۔ (النساء :157) 3۔ عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان پر اٹھالیے گئے۔ (النساء :158)