قَالَتْ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي وَلَدٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ ۖ قَالَ كَذَٰلِكِ اللَّهُ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ إِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ
(مریم) بولی ، اے میرے رب ! میرے لڑکا کیونکر ہوگا ؟ حالانکہ مجھے کسی آدمی نے نہیں چھوا فرمایا ، اسی طرح اللہ جو چاہے پیدا کرتا ہے ، وہ جو کوئی کام مقرر کرتا ہے تو صرف کہتا ہے اس کو کہ ہوجا ، سو وہ ہوجاتا ہے ۔
فہم القرآن : (آیت 47 سے 50) ربط کلام : حضرت مریم علیہا السلام کو ولادت عیسیٰ (علیہ السلام) کی خوشخبری‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اوصاف، معجزات اور ان کے مشن کا بیان۔ ملائکہ کی گفتگو ابھی جاری تھی کہ حضرت مریم (علیہ السلام) شرمندگی اور گھبراہٹ کے عالم میں فرشتوں کی بجائے اللہ تعالیٰ سے عرض کرنے لگیں کیونکہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی عیسیٰ (علیہ السلام) کی خوشخبری دے رہے تھے۔ اے میرے رب! مجھے کیونکربیٹا ہوگا؟ جب کہ کسی بشر نے آج تک مجھے چھوا ہی نہیں۔ ارشاد ہواکہ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے پیدا کرتا ہے۔ جب وہ کسی کام کا فیصلہ کرلیتا ہے تو وہ صرف اس کام کے ہوجانے کا حکم دیتا ہے اور وہ کام اسی طرح ہوجا تا ہے۔ حضرت مریم علیہا السلام یہ سوچنے لگی کہ میں کنواری ہوں میرے ماں باپ نے مجھے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ معاشرہ مجھے نیک اور باحیا سمجھتا ہے۔ قوم میں میرے خاندان کی نیک نامی کا شہرہ ہے‘ مجھے کسی انسان نے چھوا تک نہیں وہ انہی خیالات میں گم تھیں کہ اچانک حضرت جبریل امین (علیہ السلام) انسان کی شکل میں ظاہر ہوئے۔ حضرت مریم علیہا السلام چونک اٹھیں کہ میں تجھے رب رحمٰن کا واسطہ دے کر کہتی ہوں کہ اگر تم واقعی نیک ہو تو میرے قریب نہ آنا۔ جبریل امین (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تیرے رب کی طرف سے بھیجا ہواہوں تاکہ تجھے نیک بچہ عطا کروں۔ (سورۂ مریم آیت19) حضرت جبریل (علیہ السلام) نے حضرت مریم علیہا السلام کو عیسیٰ (علیہ السلام) کے اوصاف، خصوصیات، مرتبہ میں بتلاتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اسے کتاب اور حکمت ودانائی کی تعلیم دے گا تورات اور انجیل بھی سکھلائے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو لکھنے کا طریقہ سکھلایا‘ ان کی گفتگو اتنی حکیمانہ ہوتی کہ لوگ حیران رہ جاتے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں انجیل سے نوازا اور تورات پر انہیں اتنا عبور تھا کہ اگر کوئی یہودی ان سے سوال کرتا تو وہ تورات کی عبارت کا زبانی حوالہ دے کر اسے قائل اور خاموش کردیتے۔ فرشتوں نے مریم علیہا السلام کے سامنے یہ بات بھی واضح کی کہ وہ بنی اسرائیل کارسول ہوگا۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ میں تمہارے رب کی طرف سے کھلے دلائل اور معجزات لے کر آیا ہوں، میں تمہارے سامنے مٹی سے پرندہ بنا کر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اڑنے لگتا ہے پیدائشی نابینے کو بینا، کوڑھی کو صحیح اور مردے کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے زندہ کرتا ہوں پھر میں تمہیں یہ بھی بتلاتا ہوں کہ تم اپنے گھروں میں کیا کھاتے اور کیا جمع کرتے ہو ؟ یقیناً ان معجزات اور دلائل میں تمہارے لیے ہدایت کے بڑے ثبوت ہیں۔ اگر تم ایمان لانے کے لیے تیار ہو۔ میں تورات کی تائید کرتا ہوں اور ان چیزوں کو تمہارے لیے حلال کرتا ہوں جو تمہاری نافرمانیوں اور گستاخیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام قراردیں ہیں۔ ان چیزوں کو بھی تمہارے لیے جائز قرار دیتا ہوں جو تمہارے مذہبی پیشواؤں نے اپنی مرضی سے تم پر حرام کی ہیں۔ میں یہ سب دلائل و معجزات تمہارے رب کی طرف سے پیش کرتا ہوں لہٰذا اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری تابع داری میں لگ جاؤ۔ یہ بات پہلے بھی بیان ہوچکی ہے کہ نبی جس قوم میں مبعوث کیا جاتا ہے وہ قوم جس فن میں ید طولیٰ رکھتی ہو اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی نبوت ثابت کرنے کے لیے اسے ایسے معجزات عطا فرماتا ہے کہ جس سے ظاہری اسباب کے حوالے سے بھی نبی کی صداقت لوگوں کے سامنے اظہر من الشمس ہوجائے اور لوگ نبی کے دلائل کے سامنے لاجواب ثابت ہوں۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت سے پہلے اس زمانے کے اہل علم طب، جراحت اور جادوگری میں اپنے کمال کو پہنچے ہوئے تھے انہیں لاجواب کرنے کے لیے عیسیٰ (علیہ السلام) کو ایسے معجزات عطا فرمائے کہ لوگ یہ معجزات دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے۔ یادرہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ان معجزات کی نسبت اپنی طرف کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہیں کہ جس طرح میں اللہ کا رسول ہوں اسی طرح یہ معجزات اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ ہیں اس میں میرا کمال اور اختیار نہیں ہے۔ یہودیوں پر حرام کردہ چیزیں : ﴿وَعَلٰی الَّذِیْنَ ھَادُوْا حَرَّمْنَا کُلَّ ذِیْ ظُفُرٍ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْھِمْ شُحُوْمَھُمَا إِلَّا مَاحَمَلَتْ ظُھُوْرُھُمَا أَوِ الْحَوَایَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ذٰلِکَ جَزَیْنٰھُمْ بِبَغْیِھِمْ وَإِنَّا لَصٰدِقُوْنَ فَإِنْ کَذَّبُوْکَ فَقُلْ رَبُّکُمْ ذُوْ رَحْمَۃٍ وَّاسِعَۃٍ وَلَا یُرَدُّ بَأْسُہٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ﴾ [ الأنعام : 146، 147] ” اور یہود پر ہم نے تمام ناخن والے جانور حرام کردیے تھے اور گائے اور بکری میں سے ان دونوں کی چربی ان پر ہم نے حرام کردی تھی مگر وہ جو ان کی پشت پر یا انتڑیوں میں لگی ہو یا جو ہڈی سے ملی ہو۔ ان کی شرارت کے سبب ہم نے ان کو یہ سزا دی اور ہم یقیناً سچے ہیں۔ پھر اگر یہ تمہیں جھٹلائیں تو کہہ دو کہ تمہارا رب بڑی وسیع رحمت والا ہے اور اس کا عذاب مجرم لوگوں سے نہ ٹلے گا۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ جو حکم دیتا ہے وہ ہوجاتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب، حکمت، تورات اور انجیل سکھلائی۔ 3۔ عیسیٰ (علیہ السلام) صرف بنی اسرائیل کے پیغمبر تھے۔ 4۔ عیسیٰ (علیہ السلام) تورات کی تصدیق کرتے تھے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہودیوں کے لیے حرام چیزیں حلال ہونے کا اعلان فرمایا۔ 6۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے بیماروں کو شفاء اور مردے زندہ کرتے تھے۔ 7۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اپنی تابعداری اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا حکم دیتے تھے۔ 8۔ اللہ کے حکم کے بغیر کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔