أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ أَن يَسْبِقُونَا ۚ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ
کیا وہ لوگ جو برائیاں کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ وہ ہم سے بچ جائیں گے ؟ یہ لوگ کیا بڑا فیصلہ کرتے ہیں
فہم القرآن: (آیت 4سے5) ربط کلام : مومنوں کو آزمائشوں سے آگاہ کرنے کے بعد ظالموں کو انتباہ۔ جو لوگ بلا وجہ مومنوں کو تنگ کرتے ہیں ان کے بارے میں وہی الفاظ اور انداز اختیار کیا ہے جس انداز اور الفاظ میں مومنوں کو آزمائش کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔ اس سے مومنوں کو تسلّی دی گئی ہے کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والوں کو یونہی چھوڑے رکھے گا اور نہ ہی یہ اس کی دسترس سے باہر ہیں۔ بات یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اِ ن کی رسی دراز کر رکھی ہے جب پکڑنے پہ آئے گا تو ظالموں کو کوئی چھڑانے والا نہ ہوگا۔ اس کے باوجود اگر یہ سوچتے ہیں کہ ہمیں کھلا چھوڑ دیا جائے گا تو یہ ان کی بدترین غلط فہمی اور غلطی ہے جس کے بارے میں وقت آنے پر انھیں سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔ ہاں جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی توقع رکھتا ہے۔ اپنے عمل کے مطابق سزا اور جزا پر یقین رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر کسی کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جب وقت آئے گا تو لمحہ بھر کی تاخیر نہ ہوگی اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے والا اور ہر بات کو جاننے والا ہے۔ مسائل: 1۔ ظالم اللہ تعالیٰ کی دسترس سے باہر نہیں ہوتا۔ 2۔ جسے اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا یقین ہے اسے جزا اور سزا پر یقین رکھنا چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے ہر کسی کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔