وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ
اور جب فرشتوں نے کہا اے مریم ! اللہ نے تجھے پسند کیا اور تجھے پاک کیا اور جہان کی عورتوں پر تجھے برگزیدہ کیا ۔ (ف ١)
فہم القرآن : (آیت 42 سے 44) ربط کلام : خطاب کا رخ حضرت مریم علیہا السلامکی طرف ہوتا ہے۔ سلسلۂ کلام یہاں تک پہنچا کہ حضرت مریم علیہا السلامکی والدہ جو حضرت عمران (علیہ السلام) کی بیوی اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی نانی ہیں انہوں نے نذر مانی تھی کہ اللہ تعالیٰ اسے بیٹا عطا فرمائے گا تو وہ اس کو اللہ تعالیٰ کی نذر کر دے گی لیکن بیٹے کے بجائے مریم پیدا ہوئی تو اس نے مریم کو ہی اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے وقف کردیا جو مسجد اقصیٰ کے متصل ایک حجرے میں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتی تھی۔ جب حضرت مریم علیہا السلام سن بلوغت کو پہنچی تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ملائکہ نے یہ پیغام دیا کہ اے مریم! اللہ نے تجھے منتخب فرمالیا ہے گناہوں، حیض ونفاس اور لوگوں کے الزامات سے پاک کردیا ہے اور تجھے دنیا کی عورتوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے لہٰذا اے مریم! اپنے رب کی تابعدار بن جا، اس کے حضور سجدہ ریز ہوتی رہو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتی رہو۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ سَمِعْتُ عَلِیًّا (رض) یَقُوْلُ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) یَقُوْلُ خَیْرُنِسَائِھَا مَرْیَمُ ابْنَۃُ عِمْرَانَ وَخَیْرُ نِسَائِھَا خَدِیْجَۃُ)[ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب وإذ قالت الملائکۃ یامریم] ” حضرت عبداللہ بن جعفر کہتے ہیں میں نے حضرت علی (رض) سے سنا وہ کہتے تھے میں نے نبی کریم (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا کہ عورتوں میں مریم بنت عمران (علیہ السلام) اور خدیجہ (رض) بہترین عورتیں ہیں۔“ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) فَاطِمَۃُ سَیِّدَۃُ نِسَاءِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ) [ مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب مسند أبی سعید الخدری] ” حضرت ابو سعید (رض) فرماتے ہیں نبی (ﷺ) کا ارشاد ہے کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ مُوْسَی الْأَشْعَرِیِّ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) فَضْلُ عَائِشَۃَ عَلَی النِّسَآءِ کَفَضْلِ الثَّرِیْدِ عَلٰی سَآئِرِ الطَّعَامِ کَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ کَثِیْرٌ وَّلَمْ یَکْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَرْیَمُ بْنَتُ عِمْرَانَ وَآسِیَۃُ امْرَأَۃُ فِرْعَوْنَ) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ ﴿إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ﴾] ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں نبی (ﷺ) نے فرمایا : عورتوں میں عائشہ کی فضیلت ایسے ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کی ہے‘ مردوں میں کامل لوگ بہت ہیں لیکن عورتوں میں مریم بنت عمران اور آسیہ زوجۂ فرعون کے علاوہ کوئی کامل نہیں۔“ علامہ رازی نے امام اوزاعی کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت مریم علیہا السلاماس قدر نماز میں طویل قیام کرتی کہ ان کے پاؤں سے خون رسنا شروع ہوجاتا۔ واقعہ کے بیان میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ میرے پیغمبر! یہ غیب کی خبریں ہیں جو تمہارے سامنے بیان کی جارہی ہیں کیونکہ تم اس وقت موجود نہیں تھے جب لوگ مریم کو اپنی کفالت میں لینے کے لیے باہم جھگڑتے ہوئے قلموں کے ذریعے قرعہ اندازی کر رہے تھے۔ اہل علم نے لکھا ہے کہ اس زمانے میں مذہبی لوگوں میں رواج تھا کہ جب کسی بات کا فیصلہ نہ ہوپاتا تو وہ ان قلموں کو پانی میں پھینکتے جن کے ذریعے تورات کی کتابت کی جاتی تھی جس کا قرعہ نکلتا اس کا قلم پانی کے بہاؤ کی طرف بہنے کے بجائے وہیں ٹھہرا رہتا یا الٹا چلنا شروع ہوجاتا۔ اس طرح حضرت زکریا (علیہ السلام) کا نام نکلا جو رشتہ میں حضرت مریم علیہا السلام کے خالو لگتے تھے۔ حضرت مریم علیہا السلام کی کفالت پر یہ لوگ اس لیے جھگڑتے تھے کہ حضرت مریم علیہا السلام کو اللہ تعالیٰ نے ابتدا میں ہی اپنے ہاں ایک مقام سے نوازا تھا۔ وہ بچپن میں نہایت ہی معصوم، شرم وحیا کا مجسمہ اور حسن وجمال کی پیکر تھی۔ ان کے وجود کی برکات اور کرامات لوگ دیکھ چکے تھے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم علیہا السلام کو ہر قسم کے عیب سے پاک اور عورتوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ 2۔ حضرت مریم علیہا السلام عبادت گزار اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبردار تھی۔ 3۔ یہ غیب کی خبریں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (ﷺ) پر وحی فرمائی ہیں۔ تفسیربالقرآن : رسول اللہ (ﷺ) حاضر وناظر نہیں ہیں : 1۔ مریم علیہا السلا م کی کفالت کے وقت رسول اللہ (ﷺ) حاضر نہ تھے۔ (آل عمران : 24) 2۔ اخوان یوسف کے مکر کے وقت رسول اللہ (ﷺ) موجود نہ تھے۔ (یوسف :102)